
پہلگام، وادی کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں سے ایک ہے، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ مسکرا رہی ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ سرزمین ایک بار پھر دہشتگردی کے اندوہناک واقعے سے لرز اُٹھی۔ 23 اپریل 2025 کو، بائیسارن کے مقام پر ایک دل دہلا دینے والا حملہ ہوا، جس میں 26 معصوم سیاح جان کی بازی ہار گئے۔ یہ سانحہ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک المناک دن تھا۔
پاکستان نے اس حملے پر فوری طور پر افسوس کا اظہار کیا، متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، اور کسی بھی قسم کی دہشتگردی کی مذمت کی۔ تاہم، بھارتی میڈیا نے انسانی ہمدردی کی بجائے نفرت اور الزام تراشی کا بازار گرم کر دیا۔ بغیر کسی ٹھوس شواہد کے، روایتی انداز میں انگلیاں پاکستان کی جانب اٹھنے لگیں۔ یہ رویہ ناصرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ دونوں ممالک کی عوام کے درمیان نفرت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے والا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس کے کئی نمایاں اینکرز اپنی خبروں میں جس انداز سے پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں، وہ محض صحافتی بددیانتی نہیں بلکہ شدت پسندی کا کھلا اظہار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا کا کردار صرف نیشنلزم کو فروغ دینا اور عوامی جذبات کو بھڑکانا ہے؟ کیا سچائی، تحقیق اور شواہد کی بنیاد پر رپورٹنگ قصہ پارینہ بن چکی ہے؟
اگر میڈیا واقعی غیر جانبدار ہوتا تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھاتا کہ سات لاکھ سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ایسا دلخراش واقعہ کیسے رونما ہوا؟ بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی مکمل ناکامی پر کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی؟ اگر پہلگام جیسے حساس مقام پر بار بار دہشتگردی ہو رہی ہے تو کیا یہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کا ناقابل معافی خلاء نہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ پہلگام دہشتگردی کی لپیٹ میں آیا ہو۔ 1993 میں یہاں ایک سکھ سیاحوں کے گروہ کو قتل کیا گیا تھا، اور اس حملے میں مبینہ طور پر حملہ آور ہندو تھے۔ تب بھی میڈیا نے مجرموں کے مذہب سے آنکھیں چرا لیں اور حقیقت کو دبا دیا گیا۔ اس کے بعد بھی مختلف برسوں میں پہلگام میں کئی بار تشدد کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، لیکن کسی میں بھی انٹیلی جنس کی ناکامی پر مناسب سوالات نہیں اٹھائے گئے۔
موجودہ حملے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے جو “فوری اقدامات” کیے گئے، وہ اس شک کو جنم دیتے ہیں کہ شاید یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا، اور محض کسی واقعے کے انتظار میں تھے۔ جیسے ہی حملہ ہوا، میڈیا پر ایک مخصوص بیانیہ چھا گیا، اور حکومتی فیصلے برق رفتاری سے نافذ کر دیے گئے۔ ایسے میں بھارتی میڈیا کا کردار ایک حکومتی مشیر اور انٹیلی جنس معاون کا بن کر رہ گیا ہے۔
بھارتی میڈیا اگر ماضی کی شکستوں کو بھول چکا ہے تو یاد دہانی ضروری ہے کہ 2019 میں بالا کوٹ کا ڈرامہ اور بھارتی فضائیہ کی جگ ہسائی دنیا نے دیکھی تھی۔ پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کا وہ مظاہرہ کیا جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی فوج کے سپوت “پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے” کا فن خوب جانتے ہیں۔ ہم امن کے داعی ضرور ہیں، لیکن اپنی سرزمین اور سالمیت کے محافظ بھی۔
پہلگام کا حالیہ سانحہ ایک انسانی المیہ ہے، لیکن بھارتی میڈیا اور حکومت نے اسے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ بنا کر حقائق کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ امن کی راہ نفرت سے نہیں، حقیقت پسندی اور انصاف سے نکلتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی عوام بھی اپنے میڈیا سے سوال کرے “کیا سچ جاننے کا حق صرف نعروں میں محدود ہو چکا ہے؟
زنیر بھائی ۔ آپ نے مختصر مگر جامع تحریر میں بہت کچھ واضح کر دیا ۔ آپ نے ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کی وضاحت کی ہے ۔ انڈین میڈیا کو ہوش کے ناخن لینا ضروری ہیں ۔
یہ نا ہو کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر انڈیا کو اس کے سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔