احترام، مذہب اور آزادی اظہار
تحریر: محمد زنیر
میں نے کبھی بلاسفیمی کے بارے میں زیادہ گہرائی تک جانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ شاید ہمارے ملک پاکستان میں اس حوالے سے رائج رویّے ہیں۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستی یا مقدس علامات و مقامات کی توہین کرنا یا اِس بارے توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرنے کو انگریزی زبان میں بلاسفیمی جبکہ اردو میں توہین مذہب کہا جاتا ہے۔
لیکن یہ خیال ضرور جنم لیتا ہے کہ بلاسفیمی کےمظاہر کےبارے میں پڑھنے اور تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس بارے قوانین کب ،کیسے اور کیوں بنائے گئےاور لوگوں میں پُر تشدد رویوں کی وجوہات کیا ہیں اور دُنیا کی دیگر اقوام اس معاملے پر کیا رائے رکھتی ہیں۔
برصغیر میں بلاسفیمی قوانین کی ابتدا انگریز دور میں ہوئی تھی جب انگریز سرکار نے توہینِ مذہب کو ایک جُرم قرار دیا۔
بعد ازاں اس قانون کی توسیع کرتے ہوئے ایسے اظہار و پرچار کو بھی جرم قرار دے دیا گیا جس کا مقصد مذہبی عقائد کی تضحیک کے زریعے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروع کرنا یا پھر دوسرے الفاظ میں مشتعل کرنا ہو۔
تاہم قیام پاکستان کے چالیس برس بعد تک اس عمومی قانون کو برقرار رکھا گیا اور پھر جنرل ضیاالحق کے دور میں اس قانون میں نئی شقیں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہُوا جس میں اسلامی مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز اظہارکو سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔ سب سے پہلے توہین رسالت پر عمر قید اور سزائے موت کی سزا مقرر کردی گئی البتہ چند سال بعدہی عمر قید کی گنجائش بھی ختم کردی گئی۔ قوانین کی نئی شقوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور مقدمات کی تعداد بھی بارہ سو سے تجاوز کرگئی۔ توہین صحابہ کی شق میں آخری ترمیم فروری دوہزا چوبیس میں کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں تشُدد کے واقعات بھی سینکڑوں میں پہنچ گئے، جبکہ ۱۹۲۷ اور ۱۹۸۸ کے درمیان فقط چند معاملوں کا سُراغ ملتا ہے۔
اب جاننے کے بات یہ ہے ان میں سے کتنے ایسے مقدمات تھے جن پر عدالت نے سزائیں سنائیں اور کیا وجہ ہے کہ قوانین کی تعداد اور سزائیں سخت کردینے کے ساتھ تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اسکی آخری مثال سوات میں دو ہفتے پہلے ہونے والا شرمناک واقعہ تھا جس میں ایک سیاح پر توہین قرآن کا الزام لگا کر نہ صرف اُسے ماورائے عدالت قتل کردیا بلکہ ہجوم نے اُسکی لاش کو نذر آتش بھی کردیا۔
اس سے پہلے ہم نے بستیوں کو آگ لگتے اور کسچن کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہوئے بھی دیکھے۔بلاسفیمی کے قوانین اور پُر تشدد رویے ہمیشہ سے ہی تضادات کا شکار رہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیئے بدنامی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ اس پر بات کرنا بھی ایک آسان کام نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی بحث ہے کہ جس پر بات کرنے کے لیے نہ صرف ہمت چاھیئے بلکہ معاملات کو گہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت درکار بھی ہے جو کہ بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں ناروے میں رہنے والے پاکستانی نژاد صحافی ،خواجہ عطا محمود انصاری نے یہ ہمت کرتے ہوئے اس پر بات کا آغاز کیا اور نارویجین زبان میں“بلاسفیمی کی خونی تاریخ” کے عنوان سے ایک تجزیاتی کتاب لکھی جس میں گزشتہ چھتیس برس سے جاری مسلم اور مغربی مُتحرکین کے مابین توہین مذہب اور آزادیِ اظہارکی حدپر اختلاِ ف اور بعض اوقات شدید ٹکراؤ پیداکردینے والے متعدد واقعات کا احاطہ کیا گیا۔
انصاری صاحب نے اس کتاب میں بلاسفیمی کے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ میں ہونے والے ایسے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جن کا تعلق کسی بھی مذہب، ان کے مقدس مقامات اور شخصیات کی توہین کی گئی ہے۔
انصاری صاحب گزشتہ تین سے زائد دہائیوں سے صحافت کے پیشہ سے مُنسلک ہیں اور نارویجن براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے لیئےبے شمار بہترین ڈاکومینٹری فلمیں بناچکے ہیں جس پر انھیں نیشنل ایوارڈ بھی دیئے گئے۔
وہ کتاب کے ذریعے ہر طرح کے نظریات وعقائد رکھنے والوں کو ادب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے تنازعے یا ٹکراؤ سے نمٹنے کے لیے تحمل اور برداشت کا حصار مضبوط بنایا جاسکے۔
انصاری صاحب کا تعلق تو پاکستان سےہے جو اُن کے رکھ رکھاؤ رہن سہن کے ساتھ اُنکے لہجے سے اب بھی جھلکتا ہے اور وہ اپنے پاکستانی ہونے پر بے حد فخر بھی کرتے ہیں، ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے بچپن کے ابتدائی دن کراچی میں گزرے اور پھر یورپ میں آبسے یہاں کے معاشرے میں انہوں اپنے آپ کو ڈھالتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان سے قطعاً دوری اختیار نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو یورپین کلچر کے ساتھ ساتھ پاکستانی کلچر اور روایات سے بہترین آشنائی ہے جس کا عکس ان کی اس کتاب میں بھی واضع طور پر موجود ہے۔
اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی مارکیٹ میں جلد آجائے گا۔ گزشتہ دنوں اس کتا ب کے حوالے سے ناروے کی ایک ادبی تنظیم حلقۂ ارباب ذوق جس کے جنرل سیکرٹری پاکستانی نژاد نوجوان نارویجین شاعرآفتاب وڑائچ ہیں نے فیورست لائبریری میں ایک مکالمے کی نشست رکھی جس میں مجھے اس کتاب کے حوالے سے بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا کہ تقریبا تین سو ساٹھ صحفات پر مشتمل اس کتاب میں کیا کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آزادی اظہار ایک سیاسی حق ہے جو کہ انسانی حقوق کا بنیادی حصہ ہے، جس کی ہر معاشرہ اپنی اقدار، روایات اور تاریخی پس منظر میں حدود مقرر کرتا ہے اور ہمیں مختلف معاشروں میں مختلف حدود نظر آئیں گی۔ مذہبی آزادی کی ضمانت بھی آزادیِ اظہار میں ہی پیوستہ ہے ۔ اگر آزادی اظہار نہیں ہے تو مذہب کی بھی آزادی نہیں ہے یہ ایک سیاسی حق ہے جو کہ حقیقی جمہوریت اور عوام کی بالاستی کا ضامن بھی ہے۔
اپنی کتاب سے اقتباس پیش کرتے ہوئے انصاری صاحب کہتے ہیں کہ مذہب کی توہین ہر کسی کے لیے ناگوار ہوتی ہے لیکن ہر کوئی تشدد پر آمادہ نہیں ہوتا، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں کوئی کمزوری ہو یا پھر ان کی پرورش و تربیت میں ہی کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ تشدد پسند لوگوں کو کہیں نہ کہیں نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان کو کسی مینٹر یا رہبر کی سخت ضرورت ہوتی ہے جو انُ کو اپنے مفاد کی خاطر ایندھن کے طور پر استعمال کرسکے۔
انصاری صاحب جتنے دھیمے اور تحمل مزاج شخصیت کے مالک ہیں وہ اپنی کتاب میں بھی تمام عقائد کے ماننے والے سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اس تنازعے کو ٹکراؤ سے نہیں بلکہ بیٹھ کر تحمل و بات چیت کے ساتھ نمٹانا ہوگا ورنہ یہ خونریزی کبھی بند نہ ہوگی اور بے گنا لوگ اس کی آگ میں زندہ جلتے رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوس کی بات یہ کہ جہاں کرسچن اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند لوگ اسلامی مقدسات و شخصیات کو نشانہ بنا تے رہے ہیں وہیں یہ رویہ اب مسلمانوں میں بھی آچکا ہے جس کی مثال بلاسفیمی کے الزام میں بے گناہ لوگوں کو زندہ جلا دیا جانا ہے یا پھر کسی مندر یا چرچ کو نذر آتش کردینا عینِ اسلام سمجھا جانے لگا ہے۔
انصاری صاحب نے مکالمے کی نشست میں بات کرتے ہوئے کتاب لکھنے کی وجہ اورلکھنے کے دوران ہونے والے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ میری رپورٹنگ اور میری ڈاکیو مینٹری فلموں کے عنوانات یہ نہیں رہے لیکن سلمان رشدی، ڈینش کارٹونز، فرانسیسی کارٹونز، ناروے اور سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی سمیت پاکستان اور ہندوستان میں بھی کئی ایسے واقعات کہ جن میں گائے کی قربانی یا گوشت لے جانے پر قتل کردینا یا مذہب کے نام پر زندہ جلا دینا جیسے بے شمار واقعات ہیں جس سے پیدا ہونے والے سوالات اور واقعات کی تحقیق، انکے اسباب و محرکات جاننا مقصد تھا اور وہ ان واقعات کو ایک ترتیب دینے کے ساتھ انکا پاکستان کے تاریخی و سیاسی پس منظر اور مغرب میں رہنے والے مسُلمانوں کے تجربات و احساسات کی روشنی میں تجزیہ کرنا تھا چناچہ یہ کتاب خالصتاً ایک صحافتی کوشش ہے۔
زنیر ؛ آپ نے نہایت شستہ اور معروضی انداز اپناتے ہوئے ایک بہت ہی نازک موضوع کو انتہائی دانش مندی سے نا صرف پیش کیا بلکہ اس ضمن میں انصاری صاحب کی شائع ہونے والی کتاب سے متعارف ہونے کا موقع بھی فراہم کیا
یقیناً بلاسفیمی ایسے موضوعات پہ بات کرنے سے ہی نئی راہیں متعین کی جاسکتی ہیں
بہترین تحریر ۔ شاباش
جزاک اللہ سر آپکے وقت کا شکریہ ، یہ سب آپ جیسے استادوں ک رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ آپکی شاباش میرے لیے بہت بڑی حوصلہ افزائی ہے۔
سلامت رہیں
بہت ہی اہم نوضوع پر قلم اٹگایا ہے آپ نے ، خاص طور ہر بیرون ملک رہنے والے ہاکسرانی یا اردو ہڑھنے والوں کو اندازہ ئو جاۓ گا کہ ہنارے بھائ بند پاکستان میں کس قرب سے گزر رپے ہیں، کسی بھی وقت کوئ بھی بندہ کوئ بھی الزام لگا سکتا ہے
شکریہ آپکے وقت کا آپ نے اس پڑھا اور اس پر تبصرہ پیش کیا