بلوچستان مسئلہ ہے کیا؟ (تحریر و تحقیق: محمد طارق خان)

تحریر: محمد طارق خان
تحریر: محمد طارق خان

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ خطہ طویل عرصے سے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی مسائل کا شکار رہا ہے۔ یہاں بغاوتوں کی تاریخ، موجودہ مسلح جدوجہد، نسلی تقسیم، معاشی حقائق اور ممکنہ حل پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں بغاوتوں کی تاریخ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ آزادی کے بعد سے اب تک مختلف ادوار میں بلوچ قوم پرستوں نے اپنی شناخت، خودمختاری اور وسائل پر اختیار کے لیے مزاحمت کی ہے۔ 1948 میں سب سے پہلی مسلح بغاوت ریاست قلات کے پاکستان میں الحاق کے خلاف ہوئی۔ اس بغاوت کی قیادت شہزادہ آغا عبدالکریم نے کی، جو خان آف قلات کے بھائی تھے۔ ان کا موقف تھا کہ قلات نے پاکستان میں زبردستی شمولیت اختیار کی ہے اور اس کے عوام کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ عبدالکریم نے افغانستان سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور بالآخر محدود وسائل کے باعث ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں یہ بغاوت ناکام ہوگئی اور عبدالکریم کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے بعد 1958 میں ایک اور بغاوت کا آغاز ہوا، جس کی قیادت نواب نوروز خان زہری نے کی۔ یہ بغاوت جنرل ایوب خان کے مارشل لا اور ون یونٹ اسکیم کے خلاف تھی، جس کے تحت تمام مغربی پاکستان کو ایک ہی اکائی میں ضم کر دیا گیا تھا۔ بلوچ رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ اس اقدام سے ان کی شناخت اور خودمختاری ختم ہو جائے گی۔ نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں نے مسلح جدوجہد کی اور سرکاری املاک کو نشانہ بنایا، تاہم پاکستانی حکومت نے مذاکرات کے ذریعے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ لیکن بعد میں انہیں گرفتار کر لیا گیا، اور ان کے بیٹوں کو سزائے موت دے دی گئی، جبکہ خود نوروز خان کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ کہا جاتا ہے ریاست نے بلوچ سرداروں کے ساتھ دھوکہ کیا، جب وہ ہتھیار ڈال چکے تھے پھر بھی نواب نوروز کے ساتھیوں اور بیٹوں کو سزا دینا سراسر دھوکہ تھا۔

خیر، اس کے بعد تاریخ آگے بڑھی۔ بلوچستان میں تیسری بغاوت 1963 سے 1969 کے دوران ہوئی، جو زیادہ تر عسکری نوعیت کی تھی۔ اس بغاوت کی قیادت شیر محمد مری نے کی، جنہیں جنرل شیروف بھی کہا جاتا تھا اور وہ مارکسسٹ نظریات کے حامل تھے۔ وہ بلوچستان کے وسائل پر مقامی کنٹرول چاہتے تھے۔ ان کے گوریلا جنگجو پہاڑوں میں چھپ کر کارروائیاں کرتے رہے اور حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے رہے۔ تاہم 1969 میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ کا خاتمہ کر دیا، جس کے بعد اس بغاوت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

محرومیوں کے سائے بلوچستان میں گہرے ہوتے جا رہے تھے، پھر رہی سہی کسر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے نکال دی گئی۔ یوں بھٹو صاحب کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی بغاوت ہوئی، اور وجہ تھی بلوچ قوم پرست صوبائی حکومت کا خاتمہ۔

ستر کی دہائی میں بھٹو حکومت نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا، جس پر بلوچ قوم پرستوں نے سخت ردعمل دیا۔ میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش مری نے اس بغاوت کی قیادت کی۔ اس دوران کئی بڑے حملے ہوئے، جن میں تندوری حملہ (1973) اور چمالنگ کی لڑائی (1974) شامل ہیں۔ پاکستانی فوج نے اس بغاوت کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً پندرہ ہزار بلوچ جنگجو اور عام شہری مارے گئے۔ 1977 میں جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا، اور یوں یہ بغاوت ختم ہو گئی۔

بلوچستان میں ایک نئی بغاوت کا آغاز 2000 کی دہائی میں ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔ اس بغاوت میں شدت 2006 میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد آئی۔ بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن آرمی جیسے مسلح گروہ اس جدوجہد میں سرگرم ہو گئے اور انہوں نے پاکستانی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملے شروع کر دیے۔ حکومت نے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کیے، جن میں آپریشن رد الفساد بھی شامل ہے۔ تاہم اس مسئلے کا ابھی تک کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آیا ہے اور مسلح کارروائیاں جاری ہیں۔

موجودہ دور میں بلوچستان میں کئی عسکری گروہ سرگرم ہیں، جن میں بلوچ لبریشن آرمی سب سے زیادہ متحرک ہے۔ اس گروہ کی قیادت بشیر زیب بلوچ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دائرہ کار خضدار، کوہلو اور ڈیرہ بگٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس تنظیم نے کئی بڑے حملے کیے، جن میں 2024 میں ٹرین حملہ اور 2022 میں کراچی یونیورسٹی حملہ شامل ہیں۔

بلوچستان کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں۔ بلوچ قوم پرستوں کے آپسی اختلافات ہوں یا بلوچ پشتون نسلی تقسیم، تمام مسائل اہم ہیں۔

بلوچستان کی جغرافیائی صورتحال بھی انتہائی پیچیدہ ہے، جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ صوبہ ایران اور افغانستان کے ساتھ طویل سرحدیں رکھتا ہے، جو اکثر اوقات غیر قانونی نقل و حرکت اور اسمگلنگ کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی 750 کلومیٹر طویل ہے، جس میں گوادر اور پسنی جیسے اہم بندرگاہی شہر شامل ہیں۔

بلوچستان میں احساس محرومی پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ پورے پاکستان میں گیس بلوچستان سے جائے اور بلوچستان میں ہی گیس میسر نہ ہو؟ حکومت کا جواب ہے کہ بلوچستان بہت بڑا ہے اور لوگ بکھرے ہوئے ہیں، اس کے لیے گیس کے انفراسٹرکچر کا جال جگہ جگہ پہنچانا انتہائی مشکل ہے، اور رہی سہی کسر وہاں کے حالات نے نکال دی ہے۔

بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کئی ممکنہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، سیاسی مذاکرات کو فروغ دینا ہوگا اور بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ اس کے علاوہ، سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں مقامی آبادی کو زیادہ روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

جبری گمشدگیوں اور فوجی عدالتوں کے معاملات کو بھی شفاف طریقے سے حل کرنا ہوگا تاکہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہو سکے۔ اس کے علاوہ، بلوچستان میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، تاکہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

بلوچستان کا مسئلہ محض ایک سکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا مجموعہ ہے۔ اس کا دیرپا حل صرف طاقت کے ذریعے ممکن نہیں، بلکہ سیاسی مذاکرات، بنیادی حقوق کی بحالی اور معاشی ترقی کے ذریعے ہی بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں