ٹرمپ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا (تحریر: اختر چوہدری)

تحریر: اختر چوہدری، سابق ڈپٹی اسپیکر، نارویجین پارلیمنٹ

وقت آ گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس کے حقیقی (اور سنگین) نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اب بات مذاق یا ٹھٹھے کی نہیں۔

امریکہ کے صدر کی حیثیت سے وہ دنیا کے سب سے طاقتور منصب پر فائز ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے سالار ہیں، دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے سربراہ ہیں اور ان کا سیاسی، سفارتی اور ثقافتی اثر و رسوخ غیر معمولی ہے۔

امریکی جمہوریت کی یہ خاصیت ہے کہ ریاستی نظام صدر کی پالیسیوں کو مکمل وفاداری اور قوت کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں چوُں چراں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سرکاری مشینری کے افراد ذاتی رائے اور ممکنہ اختلافات سے اوپر اٹھ کر منتخب صدر اور اس کی انتظامیہ کے فیصلوں کی کامیابی کے لیے کام کرتے ہیں۔

ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی متنازع بیانات دیے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ سنگین تجویز فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ کے خطہ کی امن، عالمی سیاست، امریکہ کے دنیا کے ساتھ تعلقات اور سب سے بڑھ کر فلسطینی عوام کے لیے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ انسانوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے کا منصوبہ آج کے انسانی معاشرہ میں اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے۔ محض طاقت کے زور پر لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ یہ سیاسی طور پر بھی ناقابل عمل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبری نقل مکانی تنازعات کو حل نہیں کر پاتی۔ بلکہ یہ شدید بحرانوں، وسیع پیمانے پر احتجاج اور طویل المدت تنازعات کو جنم دیتی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف خطے کو مزید غیر مستحکم کرے گا بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بے چینی کو ہوا دے گا۔

ے گھر کیے گئے لوگ اپنے ساتھ غصہ، غم اور صدمے لے کر جائیں گے جو نئے تنازعات کو جنم دے گا۔ شاید ٹرمپ اور ان کے مشیر اس منصوبے کو طویل المدتی، بلکہ ہزار سالہ نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہوں، جس میں یہ تصور کیا جا رہا ہو کہ نقل مکانی سے پیدا ہونے والا بحران وقت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔  اور جب تک منظر صاف ہو گا ‘عظیم اسرائیل‘ کی بنیاد رکھ سکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت واقعی اب بھی اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں طاقت کو اخلاقیات اور تاریخ سے بالاتر سمجھا جائے؟ ایسی پالیسی امیدوں اور زندگیاں تباہ کریں گی اور مسائل حل کرنے کے بجائے مزید مسائل کو جنم دیں گی۔

تاریخ اسے اخلاقی طور پر ناقابل قبول اور انسانی تہذیب کے لیے ایک سنگین غلطی  کے طور پر یاد رکھے گی۔ اس خطرناک منصوبے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اور اس کا واضح اور مضبوطی سے مقابلہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو بھی اس صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں طاقت کی جیومیٹری کو سمجھنا اور سیکھنا ہو گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ طاقت کے خط پر کون کس کے ساتھ چل رہا، نیز جس مقام پر جتنے وسائل کے ساتھ مسلمان کھڑے ہیں، وہاں مناسب اور موزوں حکمتِ عملی کیا ہے۔

یہ وقت اپنے اور دوسروں کے وسائل، وفاداریوں اور طاقت کے توازن کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے، ان کا تجزیہ کرنے اور ان کے مطابق لائحۂ عمل بنانے کا ہے۔ جذباتی اور کم بینی سے کیے گئے فیصلہ وسائل کے غلط استعمال اور راستوں کو کھوٹا کر دیتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں