
photo credit e24.no
اردوٹریبون (اوسلو) نارویجن اخبار “وے گے” کو انٹرویو دیتے ہوئےدائیں بازو جماعت کی سربراہ ارنا سولبرگ نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ناروے میں امیگریشن حاصل کرنے والوں کے لئے فوائد کو کم پرکشش بنانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ناروے میں مہاجرین کی بڑی تعداد آ چکی ہے، جس کا اب تسلسل ممکن نہیں ہے۔ سولبرگ نے کہا کہ آئندہ 20 سالوں میں افریقہ اور ایشیا سے مہاجرین کی آمد میں اضافے کا خدشہ ہے، جو ناروے کے سماجی نظام پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
سولبرگ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ نارویجن سسٹم میں دستیاب مراعات دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ کشش رکھتی ہیں، جو مہاجرین کے لیے ناروے کو ایک پرکشش منزل بنا سکتی ہیں۔ دائیں بازو جماعت کا موقف ہے کہ تارکین وطن کے حوالے سے نئی حکمت عملی بنائی جائے جس میں سخت قوانین شامل ہوں۔
پارٹی کی جانب سے مجوزہ پالیسی میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
پناہ گزینوں کے لیے تیسرے ممالک میں مراکز کے قیام پر غور کیا جائے گا، جہاں مہاجرین کی درخواستوں پر کارروائی ہوگی۔
خاندانی ملاپ کے قوانین میں سختی کی جائے گی، بشمول مالی کفالت اور نارویجن زبان سیکھنے کی شرائط۔
ایسے علاقوں میں پناہ گزینوں کی آباد کاری محدود کی جائے گی جہاں پہلے ہی 25 فیصد سے زیادہ مہاجرین مقیم ہیں۔
سماجی امداد لینے والوں کے لیے سرگرمیوں میں شمولیت لازمی قرار دی جائے گی، خاص طور پر 40 سال سے کم عمر افراد کے لیے۔
ارنا سولبرگ کا کہنا تھا کہ ناروے کے بلدیاتی نظام پر پہلے ہی بوجھ بڑھ چکا ہے، خاص طور پر یوکرین سے آنے والے تقریباً 100,000 مہاجرین کی آمد کے بعد۔ انہوں نے کہا کہ ناروے یوکرینی مہاجرین کو ایک خاص ذمہ داری کے تحت پناہ دے رہا ہے، لیکن دیگر خطوں سے آنے والی مہاجرت کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے (https://www.vg.no/nyheter/i/yEbebe/naa-forteller-hoeyre-leder-erena-solberg-at-de-skal-gjoere-det-mindre-attraktivt-aa-innvandre-til-norge)۔
photo credit e24.no