
امریکہ کے نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب دنیا بھر میں ایک اہم سفارتی لمحہ ہوتی ہے، جہاں مختلف ممالک کے نمائندے شرکت کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے تعلقات کو مضبوط بنا سکیں۔ لیکن اس بار پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کی شرکت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے، ایسے فیصلے قومی مفاد کے بجائے حیرت اور تنقید کا باعث بن رہے ہیں۔ محسن نقوی، جو نہ سیاستدان ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی یا سفارتی پس منظر ہے، ان کی امریکی صدر کی حلف برداری میں شرکت کو کیا جواز دیا جا سکتا ہے؟ بطور وزیر داخلہ، ان کا کام ملک کے اندرونی معاملات دیکھنا ہے، نہ کہ سفارتی محاذ پر اپنی موجودگی کو ظاہر کرنا۔ ان کی تقریب میں موجودگی اور وہاں سابق برطانوی وزراء سے ملاقاتیں، اور نو منتخب صدر کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کی ناکام کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ دورہ مکمل طور پر غیر موثر اور غیر منطقی تھا۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اس تقریب میں شرکت کرنی چاہیے تھی، تاکہ وہ پاکستان کے خارجہ تعلقات کو موثر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ ان کی عدم شرکت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا یہ ان کی ذاتی وجوہات تھیں؟ یا کیا انہیں کسی مخصوص دباؤ یا پالیسی کے تحت روکا گیا؟ ایسی قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ شاید انہیں ضرورت سے زیادہ سفارتی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے پس پردہ قوتوں نے انہیں شرکت سے باز رکھا ہو۔
بھارتی وزیر خارجہ کی سفارتی سرگرمیاں اور پاکستان کی غیر موثر حکمت عملی
اسی تقریب میں بھارتی وزیر خارجہ کی فعال سفارتی سرگرمیاں اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی کو کتنی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ بھارت کے نمائندے اس موقعے کو اپنے سفارتی مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے تھے، جب کہ پاکستان کی طرف سے کسی واضح اور مربوط سفارتی حکمت عملی کا فقدان دکھائی دیا۔ بلکہ ایک مقابلے کی فضا نے جنم دیا ہوا ایسا لگتا ہے جیسے نقوی صاحب محض چند تصاویر ہی بنوانے گئے ہیں۔ یہ واقعہ صرف ایک مثال ہے اس سمت کی کمی کا جس کا سامنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں، پاکستان کو نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ ایک متوازن اور دوراندیش خارجہ پالیسی اپنانی ہے۔ سفارتی تقاریب میں غیر متعلقہ افراد کی شرکت اور موثر سفارتی حکمت عملی کی عدم موجودگی نہ صرف پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کو بھی فروغ دیتی ہے۔
ایسے مواقع کو سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے، نہ کہ نمائشی دوروں کے لیے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک بحران سے بچانے کے لیے ضروی ہے کہ حکومت کو پیشہ ورانہ سفارتکاری کو فروغ دینا ہوگا، پاکستان کو اپنے تجربہ کار اور سفارتی پس منظر رکھنے والے افراد کو عالمی فورمز پر بھیجنا چاہیے تاکہ ایک واضح اور مربوط خارجہ پالیسی وضع کی جاسکے جو پاکستان کے مفادات کو عالمی سطح پر مؤثر طریقے سے اجاگر کرے۔ ایسے مواقع کو سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے، نہ کہ نمائشی دوروں کے لیے۔
محسن نقوی کی شرکت اور بھارتی وزیر خارجہ کی سرگرمیوں کے مابین فرق نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی پالیسیز کو ڈھالنے میں ناکام رہے، تو یہ نہ صرف ہماری عالمی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ ملکی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔