
بے باک
سید عثمان علی
[email protected]
احتجاج،دھرنے،سول نافرمانی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ۔۔۔
2014ملکی معشیت کو 4ہزار ارب کا نقصان۔۔۔
پاکستان کی تاریخ میں مارچ ہوں یااحتجاج بہت اہمیت کے حامل ہیں ان مارچوں ، احتجاجوں اور دھرنوں میں سیاسی اور مذہبی رہنما اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اکثراوقات حکومت وقت کے خلاف کھڑے دیکھائی دیے جہاں کچھ کے مطالبات پورے ہوئے اور کچھ کے نہیں۔پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں پہلا دھرنا 1980 کی ضیاالحق حکومت کیخلاف دیا گیا جو مذہبی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پارلیمنٹ کے سامنے زکوہ و عشر آرڈیننس کیخلاف دوروز تک جاری رکھا اس وقت کی حکومت نے ان کے جائز مطالبات قبول کر لئےاور دو روز تک جاری رہنے والے دھرنے میں شامل ہزاروں افراد پر امن طریقے سے منتشر ہوگئے وہاں نہ تو کسی قسم کے کنٹینرز کی ضرورت پڑی اور نہ ہی لاٹھی چارج کرنا پڑا اس وقت دھرنوں اور مظاہروں میں زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کے سامنے جاکر جھنڈے لہرانے اور پھر واپس چلے جانے کا رواج تھا۔جس سے عام لوگوں کی زندگیاں جوڑواں شہروں میں متاثر نہیں ہوتی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شہید محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کو بھی حکومتیں ملیں لیکن ان جماعتوں نے دھرنا سیاست ہر یقین نہیں رکھا ۔1990کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 16نومبر 1992کو لانگ مارچ کا اعلان کر ڈالا اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لانگ مارچ شروع کر دیا جس کی وجہ سے نواز شریف کی حکومت نہ چل سکی اور ختم کر دی گئی پھر 1996 میں جماعت اسلامی کا ملین مارچ جو پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کیا گیا ملین مارچ کے شرکا کو 3 دن تک پولیس نے آبپارہ کی حدود میں روکے رکھا پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئی اور تب مظاہرین کو ڈی چوک جانے کی اجازت دی گئی جہاں پارلیمنٹ کے سامنے جماعت اسلامی کے کارکنان نے جھنڈے لہراے نماز ادا کی اور اپنے ملین مارچ کا مقصد پورا کر کے شام تک ڈی چوک سے چلے گئے۔اور پھرکچھ دن بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے مارچ کو عوامی ردعمل سمجھ کر شہید محترمہ بے نظیر کی حکومت کو ختم کر دیا۔اور جب 2008 میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف اس وقت کے چیف جسٹس کی برطرفی کے خلاف عدلیہ بحالی کے لئے لانگ مارچ کیا گیا جوکہ منیر اے ملک، اعتزاز احسن اور علی کرد کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے پہنچا مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو اس وقت بھی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کی سرگوشایاں سنائی دینے لگیں مگر نواز شریف نے اعتزاز احسن سے مارچ کو دھرنے میں تبدیل نہ کرنے کی درخواست کی اوراس کے بعد مارچ کے تمام شرکاء منتشر ہوگئے اور اس طرح دھرنا نہ دینے کی وجہ سے ملکی معشیت کا پہیہ بھی چلتا رہا اس کے بعد دوبارہ 2009 میں نواز شریف کی قیادت میں عدلیہ بحالی مارچ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا اس وقت دونوں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا ابھی مارچ گوجرانوالہ پہنچا تھاکہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام ججز کو بحال کر نے کا اعلان کر دیا۔اور 16 مارچ 2009 کو چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کر دیا۔اور معشیت کو نقصان پہنچائے بغیر مارچ کے تمام مقاصد حاصل کے لئے گئے
2013کے عام انتخابات میں دھاندلی اور چار حلقوں میں دوبارہ گنتی نہ کرواے جانے کے خلاف 2014 میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کا آغاز کیااوردو روز میں مارچ لاہور سے اسلام آبادپہنچ گیا جہاں مارچ کو زیرو پوائنٹ اور آبپارہ پر رکنے کی اجازت دی گئ مگر مارچ میں پارٹی قائدین نے جوشیلے اور انقلابی نعرے لگا کر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جانے کا اعلان کر دیا دونوں جماعتوں کا کارکنان کی بڑی تعداد نے اسلام آباد کو اس وقت مفلوج کر دیا جب چین کے صدر نے پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے پاک چائینہ دوستی کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کا دورکرنا تھااس وقت دورے کا بڑا مقصد پاکستان میں 55 ارب ڈالرز کی ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کرنا تھی لیکن 2014 کے معشیت دشمن دھرنے نے چین کے صدر کا دورہ پاکستان منسوخ کروا دیااور اس سے ہمسایہ ملک بھارت کو موقع مل گیا چین کے صدر نے بھارت جاکر وہاں 200 ارب ڈالرز سے ذائد کی سرمایہ کاری کر دی تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے پاکستان ایک بڑی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بھی چین کے صدر کے دورے کے حوالے سے بہت پر امید تھے لیکن دورہ منسوخ ہونے سے نواز شریف کی امیدوں پر بھی پانی پھیر گیا۔ 2014 میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنے دیکر پاکستان کی معاشی ترقی پر کاری ضرب لگا ڈالی اگر تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان کی اکانومی کو 126 دن کے دھرنے کی وجہ تقریبا 4 ہزار ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جس کے سبب ملک میں بڑا معاشی بگاڑ پیدا ہوا۔ اور آج 2024 میں جب بانی پی ٹی آئی توشہ خانہ اور 9 مئی اور دیگر مقدمات کی وجہ سے جیل کاٹ رہے ہیں مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ بہت سے سیاسی لیڈران بھی لمبی جیلیں کاٹ چکیں ہیں کسی بھی لیڈر نے جیل سے نکلنے کیلئےسول نافرمانی دھرنے اور احتجاجی راستہ اختیار نہیں کیا جس سے ملکی ساکھ اور معشیت کو نقصان پہنچا ہو کیا اپنے سیاسی فائدے کیلئے ملکی معشیت کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کرنا جائز ہے ۔شاید اب ہم کسی قسم کے معاشی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر اب عوام سمجھدار اور ملکی ترقی کے خواہش مند ہیں۔