
پروفیسر لی کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام معاشرتی انضمام کی بجائے فرقوں کو مضبوط کر سکتا ہے، جس سے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔
اردو ٹریبون ( ویب ڈیسک) ناروے میں تمام مذہبی اور عقیدتی تنظیموں کو سرکاری فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، جن کی مقدار ان کے ارکان کی تعداد کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ یہ نظام دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے زیادہ فراخدلانہ نظام سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اوسلو یونیورسٹی کے اقتصادی تاریخ کے پروفیسر ای نار لی نے 5 دسمبر 2024 کو نارویجین آخبار آفتن پوستن میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں اس نظام پر تنقید کی ہے۔
پروفیسر لی نے اپنی تنقید میں کہا ہے کہ موجودہ نظام معاشرتی انضمام کی بجائے فرقوں کو مضبوط کر سکتا ہے، جس سے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق، یہ نظام بعض تنظیموں کو غیر ضروری طور پر بڑا بنا سکتا ہے، جو وسائل کے غیر مؤثر استعمال کا باعث بنتا ہے۔
پروفیسر لی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر کسی سال سرکاری فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے تو تمام مذہبی اور عقیدتی تنظیموں کی مالی معاونت میں اضافہ کرنا پڑتا ہے، چاہے ان کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ان کے مطابق، یہ میکانزم نظام کی قانونی حیثیت کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے اور اس کی طویل مدتی حمایت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ پروفیسر لی کا خیال ہے کہ موجودہ فنڈنگ نظام مستقبل میں اپنی عوامی حمایت کھو سکتا ہے، کیونکہ یہ وسائل کے غیر ضروری استعمال کو فروغ دے سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس نظام پر نظرثانی کی جانی چاہیے تاکہ معاشرتی انضمام کو فروغ دیا جا سکے اور وسائل کا مؤثر استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
حکومتی موقف کیا ہے؟
ناروے کی حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ نظام تمام مذہبی اور عقیدتی تنظیموں کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بناتا ہے اور مذہبی آزادی کے حق کو تقویت دیتا ہے۔ تاہم، پروفیسر لی کی تنقید نے اس نظام کے ممکنہ منفی پہلوؤں پر بحث کو جنم دیا ہے۔