ایک اور قاضی کا عہدختم ہوا ( تحریر: محمد زنیر)
تنقید اور تنازعات سے جڑا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور ختم ہوا اور ان کی شخصیت اور فیصلوں نے انہیں پاکستان کے عدالتی حلقوں اور سیاسی منظر نامے میں ایک منفرد مگر متنازع مقام دیا۔ ان کے متنازع ہونے کے کئی اسباب ہیں، جن میں ان کے کچھ فیصلے، ریاستی اداروں پر کھلی تنقید، اور ان کے خلاف ریفرنس کا معاملہ شامل ہے۔
قاضی صاحب کو متنازع ہونے کی کہانی شروع ہوتی ہے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت سے جب ان کے خلاف دوہرزار انیس میں ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں ان کی اور ان کی اہلیہ کی بیرونِ ملک جائیدادوں پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اس ریفرنس نے پاکستانی عدلیہ اور سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل پیدا کر دی، کیونکہ اسے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ جسٹس عیسیٰ نے اس کیس میں اپنے دفاع میں قانونی جدوجہد کی اور آخرکار سپریم کورٹ نے ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم، اس کیس نے ان کے خلاف اختلافی آراء کو جنم دیا اور ان پر یہ الزام بھی لگا کہ وہ اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ریفرنس کیس کے دوران سپریم کورٹ کے اندر بھی تقسیم نظر آئی، اور کچھ ججز ان کے موقف سے متفق نہیں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی ذات اور موقف کو عدلیہ کی مجموعی اہمیت سے زیادہ ترجیح دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریاست کے طاقتور اداروں، خاص طور پر فوج اور خفیہ اداروں پر کھل کر تنقید کرنے کی وجہ سے بھی متنازع سمجھا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں ایک فیصلہ سنایا جس میں ریاستی اداروں، بالخصوص فوج اور خفیہ اداروں پر سوالات اٹھائے گئے اور ان کے کردار پر تنقید کی گئی۔ اس فیصلے میں کہا گیا کہ ریاستی اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت یا مخالفت کرنی چاہیے۔ ۔ انہوں نے اپنے فیصلوں اور تقاریر میں بارہا ریاستی اداروں کو ان کے دائرہ اختیار میں رہنے کی تلقین کی اور جمہوری و آئینی حدود میں رہنے پر زور دیا۔ اس مؤقف کو کچھ حلقے تو عدلیہ کی آزادی کا نقیب مانتے ہیں، جبکہ دیگر حلقے اسے متنازع اور غیر ضروری تنقید سمجھتے ہیں جو اداروں کے بیچ ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔تاہم پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں نے اس فیصلے کو اس طور پر دیکھا کہ یہ ان کے خلاف ایک منفی مؤقف کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ فیض آباد دھرنا ان کے حکومت مخالف احتجاجات میں سے ایک تھا۔
جب کسی جج کے فیصلے بار بار ایک خاص سیاسی جماعت کے خلاف آتے ہیں، تو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کسی خاص ایجنڈے کی خدمت کر رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے یہ الزام لگتا رہا کہ ان کے فیصلے ذاتی یا سیاسی پسندیدگی کی بنیاد پر ہیں، جو کہ عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کے منافی ہے۔ ان کے فیصلے اور سیاسی حلقوں کی ردعمل نے ملک میں اداروں کے درمیان بد اعتمادی کو فروغ دیا۔ جب ایک ادارہ دوسرے ادارے کے فیصلوں کو چیلنج کرتا ہے یا ان کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھاتا ہے، تو یہ پورے نظام کی مضبوطی کو کمزور کرتا ہے۔ سیاسی معاملات میں عدلیہ کا کردارادا کرتے ہوئے جسٹس قاضی عیسیٰ نے کئی اہم سیاسی نوعیت کے کیسز سنے اور ان پر فیصلے دیے، جنہیں حکومتی اور سیاسی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کو متاثر کر رہے ہیں اور اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ان کے فیصلوں کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ کچھ لوگ ان کو اصولوں پر قائم ایک دلیر جج سمجھتے ہیں جو ریاستی اداروں کو جوابدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب متعدد حلقوں اور ٹحریک انصاف نے ان کے فیصلوں پر خاص طور پر تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کی جانب سے سخت تنقید کی گئی اور انہیں عدلیہ میں غیر ضروری تنازعات پیدا کرنے کا موجب سمجھا گیا، جو کہ ملک میں اداروں کے درمیان تناؤ اور بد اعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں میڈیا کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اسے عدلیہ اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا۔ جسٹس عیسیٰ کے کئی فیصلوں میں آزادیِ اظہار اور میڈیا کے حقوق کے حوالے سے قانونی مؤقف اختیار کیا گیا، جن میں انہوں نے عدالت میں ان مسائل کو نمایاں طور پر بیان کیا۔ ان کے فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادیِ اظہار کے حقوق کو عدلیہ اور میڈیا دونوں کے لیے اہمیت دی گئی۔ انہوں نے کھلے اور شفاف عدالتی نظام کی حمایت کی اور اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا کہ میڈیا کو عدالتی کارروائیوں کی آزادانہ رپورٹنگ کا حق حاصل رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک آزاد میڈیا نہ صرف عدلیہ بلکہ تمام سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نزدیک میڈیا ریاست کے مختلف اداروں کی نگرانی اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انہوں نے میڈیا کو ریاستی معاملات میں شفافیت اور جوابدہی کا ضامن قرار دیا۔ ان کا یہ مؤقف تھا کہ ریاستی ادارے میڈیا کی آزادانہ نگرانی سے عوامی مفادات کے خلاف کام کرنے سے باز رہ سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں کئی اہم اور متنازع کیسز کی سماعت کی، جن کی تعداد تقریباً 2,000 سے 3,000 تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان
اس کیس میں انہوں نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے استعمال کے حق میں فیصلہ دیا، جس سے پارٹی کی شناخت برقرار رہی۔
پاناما پیپرز کیس
انہوں نے اس اہم کیس میں بھی فیصلے کیے، جو کہ ملک کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تھے۔
آزادی اظہار رائے کے مقدمات
انہوں نے میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کے تحفظ سے متعلق کئی کیسز کا بھی سامنا کیا۔
بہتر قانون سازی
قاضی عیسیٰ نے عوامی مفاد کے تحفظ کے لیے متعدد مقدمات میں عدلیہ کی حیثیت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔
ان کی عدالت نے عوامی مفادات کے تحفظ اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں، جس نے انہیں ایک متنازع لیکن اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت بنا دیا۔ ان کی فیصلے اور سرگرمیاں پاکستانی عدلیہ کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور عدالتی تاریخ میں ایک نمایاں اور متنازع دور رہا جہاں ان کے حامی انہیں آزاد عدلیہ کے علمبردار اور ایک مضبوط و دیانت دار جج قرار دیتے ہیں، وہیں ناقدین انہیں عدلیہ میں بے چینی اور انتشار پیدا کرنے والا جج سمجھتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ان کے اقدامات اور نظریات پر بحث و تمحیص جاری رہے گی، اور ان کا کردار پاکستان کی عدلیہ کے لیے ایک مشعلِ راہ بھی بن سکتا ہے اور ایک سبق آموز داستان بھی۔