اوپن ہارٹ سرجری (تحریر، محمد زنیر)

سرجن کی کئی اقسام ہوتی ہیں، ایک وہ سرجن جو سالوں تعلیم حاصل کرنےاورسینکڑوں آپریشن کرنے کے بعد سرجن بنتا ہے۔ ایک وہ جو وہیں ان سرجن کے ساتھ کام کرنے والے ٹیکنیشن جو چھوٹی موٹی سرجری سیکھ کر سرجن بن جاتے ہیں، کچھ سرجن وہ جو سڑک کنارے بیٹھے پھنسیاں، پھوڑے اور موکے وغیر ختم کرتے ہیں۔  لیکن خوشقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے سرجن بھی موجود ہیں جو پیشے کے اعتبار سے توصحافی ہیں لیکن  کرکٹ کی سرجری بھی کرتے ہیں اور ایسی سرجری کرتے ہیں کہ کرکٹ ٹیم تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں صرف پی سی بی کا چئیرمین ہی نہیں بلکہ ٹیم کا کپتان بھی حکومت بدلنے کے ساتھ بدل دیا جاتا ہے۔

چیئرمین پی سی بی “سید محسن رضا نقوی” جوگزشتہ نگران حکومت میں بطور وزیر اعلی پنجاب  اپنی بہترین خدمات سرانجام دے چکے تھے ایک ایسی شخصیت ہیں جو ایک صحافی ہونے کے ساتھ بہترین کھلاڑی بھی ہیں جو وکٹ کے چاروں طرف کھیلنا جانتے ہیں اور اس وقت اپنے بہترین سٹروک کھیلتے ہوئے چیئرمین پی سی بی کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ کا قلمدان کا چھکا بھی لگا چکے ہیں۔

کنسٹرکشن کا شوق انہیں بہت پہلے سے ہی تھا جب جیل روڈ پر واقع “سٹی فورٹی ٹو” کے دفتر میں آئے روز توڑ پھوڑ اور کنسٹرکشن ہوتی رہتی تھی جو بعد میں گلبرگ میں واقع “چینل ٹوئنٹی فور” اور بھر کوٹ لکھ پت میں “سٹی نیوز نیٹ ورک” میں جاری رہی۔  لیکن ان کا یہ شوق پنجاب کی وزارت اعلی ملنے کے بعد مزید بڑھ گیا اور پھر انڈر پاس جیسی کنسٹرکشن سمیت وہ کام بھی کر ڈالے جو “نگران” حکومت کے کرنے کے نہ تھا اور اس کو “محسن سپیڈ” کا نام دے دیا گیا۔ محسن نقوی کا کنسٹرکشن کا یہ شوق پھربھی ختم نہ ہوا اور ایک نیا سٹڈیم بنانے کے لیے چیئرمین پی سی بی کا عہدہ حاصل کرلیا۔ یہ میں اس لیےکہہ رہا ہوں کہ جب گھر میں روٹی کھانے کے پیسے نہ ہوں اور نئی کار خرید لی جائے تو یہ ایک جنونی کا شوق ہی ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے اور نقوی صاحب دن رات کنسٹرکشن میں مصروف ہیں۔ بات صرف ترجیحات کی ہوتی ہے جو موصوف کی نظر آرہی ہیں۔

وہ لوگ جن کی کبھی ٹیم میں جگہ نہ تھی وہ بھی سلیکشن بورڈ کا حصہ بنا دیے گئے اور پھر کرکٹ میں ایسا گند شروع ہوگیا جو کبھی شاید ماضی میں بھی نہ دیکھا گیا ہو۔ انسان کی لالچ کبھی ختم نہیں ہوتی اورہمیشہ اپنے سے اوپر کی طرف نظریں جما کے رکھتا ہے۔ محسن نقوی بھی کا شمار شاید ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس وقت دو دو  عہدوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ان دونوں شعبوں میں بدترین ناکام ہوچکے ہیں۔ نہ ہی ملک میں لاقانونییت کو کنٹرول کرسکے اور نہ ہی کرکٹ کو سنبھال سکے۔

محسن نقوی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ یہ ملک ہے آپ کا میڈیا ہائوس نہیں ہے جوکامیابی سےنہ بھی چل سکے لیکن آپ کے معامالات تو چلتے رہیں گے۔ یہاں پچیس کرڑوڑ عوام ہے، ان کے جذبات ہیں اور ان کی سیکیورٹی ہے، خدارا اس ملک پر رحم کریں کرسی سے چمتے رہنے کی روایت ختم کریں۔

کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں