واشنگٹن اجلاس: ٹرمپ کی میزبانی میں مسلم و عرب رہنماؤں کی ہنگامی ملاقات — غزہ میں فوری جنگ بندی اور بحالی پر زور

اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن اجلاس کے دوران ایک اہم اور اعلیٰ سطحی نشست منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف بھی شریک رہے۔ اس اجلاس میں سعودی عرب، قطر، ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور اردن کے سربراہان اور نمائندے بھی شامل تھے۔ ملاقات کا مرکزی ایجنڈا غزہ میں جاری حملوں کے بعد امن قائم کرنا، یرغمالیوں کی بازیابی، اور جنگ زدہ علاقے کی گورننس و بحالی کے منصوبے تھا۔

اجلاس سے قبل اور بعد میں رہنماؤں کے باہمی تبادلۂ خیال کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے—وزیرِ اعظم شہباز شریف نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی، اردن کے شاہ عبدﷲ دوم اور انڈونیشیا کے صدر کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتیں کیں جن میں گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ اور خیالات کا تبادلہ ہوا۔

صدر ٹرمپ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی بازیابی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے مسلم و عرب رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے میں عملی کردار ادا کریں—خاص طور پر وہ تجویز کی جس میں کہا گیا کہ علاقائی ممالک امن عمل میں فوجی یا سکیورٹی معاونت فراہم کریں تاکہ اسرائیلی افواج کا ممکنہ انخلا اور عبوری گورننس کا بندوبست کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں، صدر ٹرمپ نے خطے کی تعمیرِ نو اور اقتدارِ منتقلی کے منصوبوں کے لیے مالی شراکت کا عندیہ بھی مانگا۔

اجلاس کے دوران مختلف ممالک کے رہنماؤں نے اپنے مؤقف اور تجاویز پیش کیں۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خطے میں پائیدار امن، انسانی بنیادوں پر امداد اور قیدیوں/یرغمالیوں کی بازیابی پر زور دیا۔ پاکستان نے عالمی برادری اور بین الاقوامی فورمز کے ذریعے حمایت کی اپیل کی اور انسانی بنیادوں پر فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

عرب و مسلم رہنماؤں نے بھی جنگ بندی، انسانی امداد کی محفوظ رسائی اور مقامی گورننس کے قیام کے لیے بین الاقوامی معاونت کی ضرورت پر اتفاق کیا، تاہم کسی مشترکہ فورم یا فوجی شراکت داری کے اعلان تک بات نہیں پہنچی۔

ٹرمپ اور امریکہ نے ایک مرتبہ پھر اس نکتہ کو اجاگر کیا کہ حماس کی طرف سے پیش کردہ کچھ پیشکشیں قبول نہ ہونے کے باعث معاملہ پیچیدہ ہوا ہے اور یرغمالیوں کی تعیینِ حیثیت اور بازیابی کو امن عمل کی اولین شرط قرار دیا گیا۔

اجلاس کے بعد صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ ملاقات “بہت کامیاب” رہی اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت سے مثبت پیش رفت کے امکانات نظر آتے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی ملاقات کو مفید قرار دیا اور بین الاقوامی شراکت داری کی اپیل دہرائی۔

تاہم، اجلاس کے اختتام تک کسی جامع یا مربوط مشترکہ حکمتِ عملی کا باقاعدہ اعلان سامنے نہیں آیا۔ رہنماؤں کے بعض اختلافات، اسرائیل کے ردعمل، اور فریقین کے مابین تفصیلی مذاکرات کے فقدان کی وجہ سے عملی اقدام کے تحفظات برقرار رہے۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی منظر عام پر آیا کہ امریکا علاقائی ممالک سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ غزہ میں افواج یا سکیورٹی عناصر فراہم کریں تاکہ اسرائیلی افواج کا مرحلہ وار انخلا ممکن بنایا جا سکے—یہی معاملہ بعض رہنماؤں کے لیے حساس رہا۔

اجلاس میں شرکاء نے یرغمالیوں کی بازیابی، فوری جنگ بندی، انسانی امداد تک رسائی اور غزہ کی بحالی کے امور زیرِ بحث لائے۔

واشنگٹن ملاقات نے غزہ بحران کے حل کے لیے مذکورہ فریقین کے بیچ گفت و شنید کو فروغ دیا، مگر عملی اقدامات اور حتمی معاہدوں کے لیے اب بھی کلیدی سیاسی و سکیورٹی سوالات باقی ہیں۔ عالمی برادری، علاقائی قوتیں اور فریقین کے مابین آئندہ ملاقاتیں اور بیک چینل مذاکرات صورتحال کی سمت کا تعین کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں