کرسچن اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے چند لوگ اسلامی مقدسات کو کئی صدیوں سے نشانہ بنا رہے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ یہ روّیہ اب مسُلمانوں میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے جسکی زندہ مثال بلاسفیمی کے الزام پر قتل یا کسی چرچ یا مندر کو نذر آتش کردینا ہیں۔
ناروے کے دارالحکموت اوسلو سے
رپورٹ: محمد زنیر
میلہ ہائوس اوسلومیں پاکستانی نژاد سینیئر صحافی عطأ انصاری کے قلم سے ”بلاسفیمی کی خونریز تاریخ” کے عنوان سےلکھی گئی تجزیاتی کتاب پر مکالمے کی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس پروگرام کی میزبانی نارویجن پارلیمینٹ کے سابق نائب صدر اختر چوہدری کررہے تھے جبکہ عطا انصاری کے ساتھ گفتگو میں نارویجن اخبار نیٹ اَویسن کے مُدیر، اور مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنےوالی ڈیبیٹر لِندا نوُر اور ناصرہ یوسف نے حصہ لیا۔
نارویجن زبان میں لکھی گئی کتاب ”بلاسفیمی کی خونریز تاریخ” میں گزشتہ تیس برس سے جاری مسلم اور مغربی مُتحرکین کے مابین توہین مذہب اور آذادیِ اظہار کی حدپر اختلاِ ف اور بعض اوقات شدید ٹکراؤ پیداکردینے والے متعدد واقعات کے ساتھ پُرانی تاریخ سے بھی لیئے گئے واقعات و علامات کا ذکر ہے۔
عطا انصاری اس کتاب میں بتاتے ہیں کہ کرسچن اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے چند لوگ اسلامی مقدسات و شخصیات کو کئی صدیوں سے نشانہ بنا رہے ہیں،۔
افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ یہ روّیہ اب مسُلمانوں میں بھی زور پکڑچکا ہے جسکی زندہ مثال بلاسفیمی کے الزام پر قتل یا کسی چرچ یا مندر کو نذر آتش کردینا ہیں۔
پچھلے ایک ماہ کے دوران ہی پاکستان میں مذھبی منافرت اور بلاسفیمی کے الزام میں تین افراد کا قتل کر دیا گیا۔
عطا انصاری تیس برس سے زائد عرصہ سے نارویجن براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے مُنسلک ہیں اور متعدد ڈاکومینٹری فلمیں بنانے پر نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں اور وہ اپنی اس کتاب کے زریعے ہر طرح کے نظریات وعقائد رکھنے والوں کو ادب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کے زریعے ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ آئندہ کسی بھی تنازعے یا ٹکراؤ سے نمٹنے کے لیئے تحمل اور برداشت کا حصار مضبوط بنایا جاسکے۔
عطاانصاری کی یہ کتاب مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے۔
میلہ ہائوس میں ہونے والی اس نشست میں پاکستانی نژاد شاعرآفتاب وڑائچ، شاعرہ مینا جی، ایڈیٹر و صحافی سیدمجاہد علی، اصغر شاہد، خالد سلیمی سمیت پاکستانی اور نارویجین کمیونٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کئی شُرکا نے مُکالمے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے ہر صورت ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا تاکہ مشدد رویوں کا تدارک ہوسکے۔