
القادر ٹرسٹ کیس:
اردو ٹریبون (اسلام آباد، پاکستان) پاکستان کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کیس، جو القادر ٹرسٹ کیس کے نام سے بھی معروف ہے، میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اسی مقدمے میں ان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی، کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔
یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا، جو تین مرتبہ مؤخر ہونے کے بعد 17 جنوری 2025 کو اڈیالہ جیل میں سنایا گیا۔ فیصلے کے وقت عمران خان، بشریٰ بی بی اور تحریکِ انصاف کی قیادت کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
یہ مقدمہ کیا تھا؟
القادر ٹرسٹ کیس کا تعلق 450 کنال سے زائد زمین کے عطیے سے ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کا الزام ہے کہ یہ عطیہ دراصل بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک مبینہ خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت برطانیہ سے منجمد شدہ 190 ملین پاؤنڈز کی رقم، جو پاکستانی حکومت کو موصول ہوئی تھی، بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کی گئی۔ تاہم، عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر ملزمان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
مقدمہ کی تفصیلات کیاہیں؟
نیب نے یکم دسمبر 2023 کو عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر 6 افراد کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا تھا۔ 27 فروری 2024 کو عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد کی گئی، جسے انہوں نے تسلیم نہیں کیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے 35 گواہان پیش کیے گئے، جن میں سابق وفاقی وزرا پرویز خٹک اور زبیدہ جلال بھی شامل تھے۔
ملزمان کون سے ہیں؟
اس کیس میں پانچ ملزمان کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے، جن میں سابق وزیرِ اعظم کے مشیر شہزاد اکبر، سابق وزیر زلفی بخاری، بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض، ان کے بیٹے اور بشریٰ بی بی کی دوست فرح شہزادی شامل ہیں۔ عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پاکستان میں ان کی جائیدادیں قرق کرنے کا حکم دیا ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟
‘القادر ٹرسٹ’ کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی تھی، جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔ یہ ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی، جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا۔ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان کو منتقل کی گئی تھی۔
فیصلے کا اثر کیاہو سکتا ہے؟
اس فیصلے کے بعد القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت نے اس فیصلے کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔