یونان: ترکی کے معروف مذہبی عالم فتح اللہ گولن کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب منعقد کی گئی
یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ترکی کے معروف مذہبی عالم فتح اللہ گولن (مرحوم) کی یاد میں ایک تعزیتی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کو جیفیرا ایرینی (Bridges of Peace) نے جرنلسٹس یونین آف ایتھنز کے دفتر میں منعقد کیا گیا جس میں صحافیوں، وکلا، پروفیسرز اور ترک کمیونٹی کے علاوہ دیگر اہم یونانی شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔
مقررین نے اپنے خطاب میں فتح اللہ گولن کی زندگی اور ان کے مقاصد کو سراہتے ہوئے انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور اُردو ٹربیوں سے بات کرتے ہوئے ان کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ فتح اللہ گولن امن کے سب سے بڑے داعی اور ایک درویش صفت انسان تھے۔
تقریب میں ان کے حالاتِ زندگی، ترک عوام کیلئے پیش کی جانے والی خدمات اور جدوجہد پر مبنی ایک فلم بھی دکھائی گئی۔
فتح اللہ گولن کا انتقال 20 اکتوبر 2024 میں امریکی ریاست پنسلوانیا میں ہوا، وہ ایک ترک مبلغ، امام، مصنف اور ایک سیاسی شخصیت سے تھے۔ اس کے علاوہ وہ گولن تحریک (جسے ہزمت یا خدمت تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے) کے بانی اور اس کی سب سے بڑی شاخ مشترکہ اقدار کے اتحاد کی با اثر شخصیت تھے۔ وہ کئی سال تک خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے امریکا کے شہر سائلس برگ، پینسلوانیا میں مقیم رہے۔ ان پر اپنے آبائی ملک ترکی میں 2016 کی ناکام بغاوت کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا بھی الزام تھا۔
گولن حنفی اسلام کے مبلغ تھے جو سنی عالم بدیع الزماں سعید نوروسی سے متاثر تھے۔ گولن کے اپنے الفاظ میں، وہ تعلیم، سائنس، اہلِ کتاب اور دیگر کے بین المذاہب مکالمہ اور کثیر جماعتی جمہوریت پر یقین رکھتے والے تھے۔
گولن نے اپنی زندگی کی آخری دہائیاں خود ساختہ جلاوطنی میں گزاریں۔ وہ پنسلوانیا کے پوکونو پہاڑوں میں رہتے ہوئے ترکی اور پوری دنیا میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے درمیان اثر و رسوخ قائم کرتے رہے۔ گولن ایک ایسے فلسفے کی حمایت کرتے رہے جسے تصوف کہا جاتا ہے۔
گولن نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے اتحادی کے طور پر شروعات کی تھی، لیکن آگے چل کر دونوں میں شدید دشمنی ہو گئی۔ گولن نے اردگان کو طاقت کے بل بوطے حکومت کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے پر تلا ہوا آمر قرار دیا تھا۔ اردگان نے گولن پر 15 جولائی 2016 کی رات فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ 2016 میں فوج کے اندر موجود دھڑوں نے اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی جس میں ٹینک، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا تھا۔
گولن نے بغاوت میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تھی، اور ان کے حامیوں نے الزامات کو مضحکہ خیز اور سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ ترکی نے گولن کو اپنی مطلوب ترین فہرست میں شامل کرتے ہوئے امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن امریکہ نے گولن کو واپس بھیجنے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکہ نے اس وقت ترکی سے گولن کے خلاف مزید شواہد مانگے تھے۔ گولن پر کبھی بھی امریکہ میں کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا۔
ترکی میں، گولن کی تحریک کو حزمت یعنی خدمت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے اردگان نے ایک بڑی مہم چلائی۔ حکومت نے بغاوت کی سازش سے مبینہ تعلق کے الزام میں دسیوں ہزار افراد کو گرفتار کیا، سول سروس کی ملازمتوں سے 130,000 سے زیادہ مشتبہ حامیوں اور 23,000 سے زیادہ کو فوج سے برطرف کیا، اور گولن سے منسلک سینکڑوں کاروبار، اسکول اور میڈیا تنظیموں کو بند کر دیا۔
گولن نے اس کریک ڈاؤن کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے ترکی کے رہنماؤں کو ظالم قرار دیا تھا۔
فتح اللہ گولن مشرقی ترکی کے شہر ایرزورم میں پیدا ہوئے۔ ان کی سرکاری تاریخ پیدائش 27 اپریل 1941 تھی، لیکن یہ طویل عرصے سے تنازعات کا شکار ہے۔ ان کے کچھ حامیوں کا دعویٰ ہے کہ گولن 1938 میں پیدا ہوئے تھے۔
ایک عالم دین کے طور پر گولن تقریباً 50 سال قبل ترکی میں مشہور ہوئے۔ انھوں نے عقائد کے درمیان رواداری اور مکالمے کی تبلیغ کی۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب اور سائنس ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ اسلام کو مغربی اقدار اور ترک قوم پرستی کے ساتھ ضم کرنے کے ان کے عقیدے نے انھیں ترکوں کے ساتھ جوڑ دیا، جس سے انہیں لاکھوں پیروکار ملے۔
گولن نے طویل عرصے سے کسی بھی سیاسی جماعت کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کیا تھا، لیکن ان کی تحریک نے اردگان کے ساتھ ملک کے پرانے محافظوں، فوجی حمایت یافتہ سیکولرز کے خلاف ڈی فیکٹو اتحاد قائم کیا تھا۔