عطائی بنےقصائی (تحریر:جواد شجا ع)

ڈاکٹر معاشرے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کردار نہ صرف جسمانی بیماریوں کے علاج تک محدود ہے بلکہ وہ ذہنی اور جذباتی صحت کی بہتری میں بھی اہم حصہ ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹرز کی خدمات ہر طبقے کے افراد کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہیں اور ان کی موجودگی معاشرتی فلاح و بہبود کے لئے لازمی ہے۔
ڈاکٹرز ایمرجنسی حالات میں لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں، بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن اور حفاظتی اقدامات میں مدد کرتے ہیں، اور صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرتے ہیں۔ وبائی امراض، جیسے کرونا وائرس کے دوران، ڈاکٹرز نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی مدد کی۔ ان کی مہارت اور خدمت کی بدولت معاشرے کو صحت مند اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
مزید برآں، ڈاکٹرز تحقیق کے ذریعے نئی دریافتیں کرتے ہیں، دواؤں کی ایجاد میں حصہ لیتے ہیں، اور عوامی صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے پالیسیز میں تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان کی بدولت معاشرے کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور زندگی کی معیاری سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹرز کا معاشرے میں کردار صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کی خدمت کا ذریعہ بھی ہے۔ ان کی محنت اور قربانیوں کے بغیر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینا ممکن نہی مگر المیہ یہ ہے کہ آج کل طبی سہولتیں حاصل کرنا عام آدمی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹری پیشہ ایک مقدس اور انسانیت دوست کام ہے، لیکن موجودہ دور میں اکثر ڈاکٹرز اور ہسپتال فیسوں میں اس قدر اضافہ کرچکے ہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ تو درکنار، اچھے خاصے صاحبِ حیثیت افراد بھی ان اخراجات کو برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں صحت کے شعبے کی پہنچ محدود ہوتی جارہی ہے۔ بنیادی علاج تک رسائی آسان نہیں رہی، کیونکہ ڈاکٹروں کی زیادہ فیسیں اور ہسپتال کے مہنگے اخراجات ایک عام آدمی کی برداشت سے باہر ہیں۔
غریب طبقے کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عام مزدور یا کم آمدنی والا شخص جب بیمار ہوتا ہے تو اسے دو وقت کی روٹی اور علاج میں سے ایک کو چننا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات، انہیں ادھوری تشخیص یا ناکافی علاج کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف غریبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امیر لوگ بھی ان اضافی فیسوں کا سامنا کرتے ہیں۔ کئی ڈاکٹرز دولت مند مریضوں سے زیادہ فیسیں طلب کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ادا کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال طبی پیشے کے اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔
ڈاکٹری کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے، لیکن موجودہ دور میں پیسے کمانا زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ کئی ڈاکٹرز اور ہسپتال مریضوں کی مدد کرنے کے بجائے انہیں کاروباری مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔
ہمیں بعض وثوق ذرائع سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ مشہور ڈاکٹرز حضرات اپنی مرضی کی دوائیں بنواتے ہیں اور ان کے اوپر اپنی مرضی کے ریٹس لگاتے ہیں اگر ایک دوائی پانچ یا 10 روپے میں ایک مریض کو مل سکتی ہے تو وہ اس میں بے جا منافع کماتے ہیں اور ان دواؤں کو مہنگے سے مہنگے داموں میں فروخت کرواتے ہیں کیونکہ جب وہ مریض کو دوا لکھ کے دیں گے تو وہ تو ان کو لینی ہی پڑے گی۔اور اس کے اوپر ظلم یہ ہے کہ وہ دوائیں صرف ان کی اپنی کلینک کے میڈیکل سٹور سے ہی ملتی ہیں اگر کسی کو ضرورت پڑ جائے تو وہ عام میڈیکل سٹور سے نہیں دستیاب ہوتی ۔ اس کے مقابلے میں اگر اسی سالٹ کی دوائیں کسی اور کمپنی کی دیکھے جائیں تو وہ ان سے کئی گنا کم پیسوں میں مل جاتی ہیں اسی طرح مشاہدے میں یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ کچھ ڈاکٹر حضرات بہت مہنگے مہنگے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں جو کہ عام ادمی کے لیے کروانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ایک تو وہ حکومتی سطح پہ ایسی لیبارٹریز بنائیں جو کہ پرائیویٹ طرز کی ہوں اور جن کے اوپر مناسب ریٹس لے کر ٹیسٹ کیے جائیں فوری طور پہ تو ایسا کرنا ناممکن ہے کم از کم اتنا ضرور کر دیں کہ جس طرح سبزی دالیں اور گوشت کی ریٹ لسٹیں بنائی جاتی ہیں اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اس بات کو ممکن بنائیں کہ پرائیویٹ لیبارٹریز حکومت کے بتائے ہوئے نرخ کے حساب سے ہی مریضوں سے ٹیسٹ کے پیسے وصول کرے ۔اس سے بہت سے مریضوں کو فائدہ ہوگا اور بہت سے مریضوں کا بروقت علاج ہو سکے گا
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت اور سماجی ادارے مل کر طبی شعبے میں اصلاحات کریں۔ صحت کو عام آدمی کی پہنچ میں لانا چاہیے۔ حکومتیں اپنی پوری کوشش کرتی ہیں کہ وہ صحت کے حوالے سے کسی قسم کی بھی کمی نہ رہنے دیں اور ہر مریض کو ہر طرح کی سہولت مہیا کر سکیں۔
ہم ڈاکٹرز حضرات سے بھی یہ التجا کرتے ہیں کہ برائے مہربانی انسانیت کے ناطے مریضوں کا خصوصی خیال کریں اج کل پاکستان کے لوگ جس مشکل کا شکار ہیں اس سے سب واقف ہیں فی الحال ہم حکومت پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ہمیں نہیں پتہ کہ اگے کیا ہونے والا ہے مگر اتنا تو کر سکتے ہیں کہ انسانیت کے طور پر ہم ایک دوسرے کا خیال کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں