پاکستان: سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظور کرالی گئی، حکومت نے دو تہائی اکثریت ثابت کردی، ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟

پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکتوبر 2024 میں پیش کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم میں اہم تبدیلیاں شامل کی گئی ہیں۔ اس ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور چیف جسٹس کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ اس کے علاوہ، آئین میں مجوزہ ترامیم میں سپریم کورٹ اور صوبوں میں آئینی بنچز کے قیام کی شقیں شامل ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم عدلیہ میں اصلاحات اور عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں، جبکہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ ترامیم حکومت کو عدلیہ میں زیادہ کنٹرول دینے کے لیے ہیں۔ تاہم، حکومت نے کچھ متنازع نکات کو ترمیمی مسودے سے نکال دیا ہے تاکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

یہ ترمیم ابھی قومی اسمبلی میں منظوری کے مراحل میں ہے اور پھر صدر کے دستخط کے بعد آئین کا حصہ بنے گی۔

اہم تبدیلیوں میں آئین کے آرٹیکل 51 (پارلیمنٹ)، 63 (پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہلی)، 175 (عدالتوں کا قیام اور دائرہ اختیار) اور 187 (سپریم کورٹ کے عمل کو جاری کرنا اور اس پر عمل درآمد) میں ترامیم شامل ہیں۔

 ترمیم کا مقصد بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی کو بڑھانا ہے جس میں نشستوں کی تعداد 65 (اراکین کا حلف) سے بڑھا کر 81 (وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈ پر چارج شدہ اخراجات) کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ آرٹیکل 63 (پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہلی) میں ترامیم میں اختلافی اراکین کے حق رائے دہی سے متعلق شرائط شامل ہیں۔

اس مسودے میں کئی آرٹیکلز شامل ہیں جو آئین میں بھی شامل کیے جائیں گے۔

آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اسی عدالت میں سنی جائیں گی۔ آرٹیکل 181 (قائم مقام ججز) میں ترمیم کرنے کا بھی منصوبہ ہے اور آرٹیکل 184 (سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار)، 185 (سپریم کورٹ کا اپیلٹ دائرہ اختیار) اور 186 (مشاورتی دائرہ اختیار) سے متعلق سماعتیں آئینی عدالت میں ہوں گی۔

26 ویں آئینی ترمیم میں ہونے والی اہم تبدیلیاں کیا ہیں؟

مجوزہ قانون سازی میں تمام شہریوں کو صحت مند اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کے لیے آئین کے بنیادی حقوق کے باب میں ایک نیا آرٹیکل (9A) شامل کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 48 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے تاکہ وزیر اعظم کو عدالتوں کی طرف سے جانچ پڑتال سے صدر کو بھیجے جانے والے کسی بھی مشورے سے استثنیٰ دیا جا سکے۔

پارٹی لائن کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کی اجازت دینے کے لیے آرٹیکل 63-A میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔

ترمیم میں غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کو جج بننے سے روکنے کے لیے آرٹیکل 177 میں تبدیلی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال کرنے کے لیے آرٹیکل 179 میں ایک اور تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم ریٹائرمنٹ کی عمر کو 65 سے تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 215 میں ترامیم تجویز کرتی ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اس وقت تک عہدے پر فائز رہیں گے جب تک کہ ان کا جانشین ان کا تقرر نہ ہو جائے، چاہے سابق کی مدت ختم ہو جائے۔ ترمیم میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ سی ای سی کو پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کے ذریعے ایک اور مدت کے لیے اپنے عہدے پر دوبارہ تعینات کیا جا سکتا ہے۔

آرٹیکل 239 میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالت پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی آئینی ترمیم پر سوال نہیں اٹھا سکے گی۔

آرٹیکل 200 میں تبدیلی حکومت کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے کی اجازت دے گی۔ تاہم، تبادلے صرف متعلقہ جج، دو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سے کیے جائیں گے۔

دیگر صوبوں کی ہائی کورٹس میں ججوں کے تبادلے کی تجاویز شامل ہیں۔ چیف جسٹس کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججوں کے پینل سے کی جائے گی، حکومت ان میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔ آئینی عدالت کے باقی چار ججوں کی تقرری بھی حکومت کرے گی۔

آئینی عدالت کا قیام 

آئینی ترمیم کا ایک بڑا حصہ ایک نئی ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے قیام سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 17 میں ترامیم تجویز کرتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا معاملہ سپریم کورٹ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجا جائے۔

آرٹیکل 48 میں ترمیم کی جائے گی تاکہ نئی عدالت کے ججوں کو ان لوگوں میں شامل کیا جائے جن کے طرز عمل پر پارلیمنٹ سوال نہیں اٹھا سکتی۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی طرح وفاقی آئینی عدالت کو فنڈز فراہم کرنے کی اجازت دینے کے لیے آرٹیکل 81 میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔

نئی عدالت کے اپنے چیف جسٹس ہوں گے جو ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کے چیئرپرسن بھی ہوں گے۔

وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر عدالت کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔

نئی عدالت کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی۔

آرٹیکل 184 میں ترمیم کے مطابق، وفاقی آئینی عدالت کو دو حکومتوں کے معاملات میں دائرہ اختیار حاصل ہو گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں