بلاعنوان (تحریر : عرفان تیمور محمد)

نفرتاں دے شہر وچ چلاکیاں دے ڈیرے آں
تیرے منہ تے تیرےآں تے میرے منہ تے میرے آں

ایک مشہور معقولہ ہے کہ ” بہادر اکثر مارے جاتے ہیں، ذہین اضطراب سے پاگل و دیوانے ہو جاتے ہیں اور دنیا مطمئن بیغیرتوں، بیوقوفوں، لالچیوں اور منافقوں سے بھری رہتی ہے”۔

واقعی زندگی میں جہالت ، ہٹ دھرمی اور لالچ بیشرم کیلئے بڑی نعمت ہے۔

شعور دینا بغاوت نہیں، نظریہ سمجھانا اکسانا نہیں، حقائق بتانا جرم نہیں، حق کا راستہ دکھانا سازش نہیں، خوف ختم ہونا عداوت نہیں۔
جیسے ادلے و بدلے کی خاطر مدد سخاوت نہیں، موقع پرستی کیلئے عاجزی صبر نہیں، طاقت کو سلام غیرت نہیں، چھپ کر دغہ سے بدلہ انتقام نہیں، جھوٹ پکڑے جانے پر اکڑ جانا کردار نہیں اور سازشیں کرنا کوئی خوبی نہیں۔
ان سب عوامل پہ اک ضمیر نامی شے ہے جو ہر گناہ کے بعد یا غلط عمل کے بعد حتی کہ غلط سوچ کے آتے ہی کھٹکنا شروع کر دیتا ہے
آئینہ دیکھنا چاہیے سب کو۔ آئینہ فریب نہیں دیتا ، ضمیر خاموش نہیں ہوتا اس کا گلہ دبانا پڑتا ہے، شیشے کو چپ کرانا پڑتا ہے ۔۔۔۔ توڑ کر؟
کوئی شک نہیں میسنے، موقع پرست اور مکار کو اپنا آپ اکثر صابر، سیدھا اور مظلوم ہی لگتا ہے۔ فسادی کو اپنا آپ مصلح ہی لگتا ہے۔ کیونکہ تکبر، اکڑ اور انا یا پھر دنیاوی لالچ آنکھ پر پردہ، کان پر سیسہ اور دل پر غلاف چڑھا دیتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں