یونان: جاوید اسلم کی سیاسی پناہ پر سوالات، حکومت پر تنقید کی جانے لگی
سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمرآن خان نیازی کی رہائی اور یکجہتی کیلئے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر جاوید اسلم کی پناہ پر سوالات اُٹھائے جانے لگے، یونانی حکومت پر بھی زبردست تنقید کی جانے لگی۔
یونان (ڈیسک رپورٹ) گزشتہ دنوں ایتھنز کے وسط میں بانی پی ٹی آئی عمرآن خان نیازی کی رہائی کیلئے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کمیونٹی یونان (اتحاد) کے صدر جاوید اسلم کو بھی عمرآن خان کی رہائی اور اس سے یکجہتی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جس کے بعد یونانی حکومت اور وزیرِ اعظم کوسوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جاوید اسلم جو یونان میں خود کو سپریم لیڈر بھی کہتے ہیں انہیں حکومتِ پاکستان نے بلیک لسٹ میں ڈالا ہوا ہے جبکہ ان کے خلاف ریڈ وارنٹ بھی جاری کئے جا چکے ہیں۔ سفارت خانہ پاکستان ایتھنز انہیں پاسپورٹ بھی جاری نہیں کرتا اور پاکستانی عدالتوں کو مطلوب جاوید اسلم نے اپنے خلاف کئے جانے والے مقدمات کا پاکستان جا کر سامنا بھی نہیں کیا۔
بلکہ یونان میں انہوں نے سیاسی پناہ دائر کی تھی اور ان کی پہلی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی مگر دوسری مرتبہ درخواست دائر کرنے کے بعد انہیں یونان میں اس وقت سیاسی پناہ دے دی گئی جس وقت پاکستان میں عمرآن خان وزیرِ اعظم تھے۔
اب وہ یونان میں باقائدہ سیای پناہ کے حامل ایک ریفیوجی ہیں اور یونانی حکومت کی پناہ میں ہیں۔
عمرآن خان کی رہائی اور اس سے یکجہتی میں کئے جانے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے بعد جاوید اسلم کی سیاسی پناہ پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور حکومت یونان پر زبردست نتقید کی جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم یونان میچوتاکی کی حکومت جو تارکین وطن اور پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں خاص طور پر حساس ہے، اس پر اب یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے جاوید کو اس بہانے پناہ دی کہ جاوید کو اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ موجود سیاسی حکومت کی وجہ سے اپنے ملک میں ظلم و ستم کا خطرہ تھا۔ اس لیے اسے پناہ مل گئی کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم خان کی طرف سے ان پر ظلم کیا جا رہا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ: جاوید سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمرآن خان کے حق میں احتجاج کیسے کر سکتا ہے جو کل تک اسے سیاسی طور پر ستا رہا تھا ؟
دو ہی امکانات ہیں، یا تو حکومت ایک غیر ملکی کو جھوٹے معیار پر پناہ دینے کے لیے محض کوئی بہانہ ڈھونڈ رہی تھی یا پھر اسلم خود اپنے ہی خلاف ہے، جو سابق وزیرِ اعظم کی رہائی اور اس سے یکجہتی کیلئے احتجاجی مظاہرے کی ایتھنز میں کال دے رہا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی اپنے ملک کے اندرونی مسائل کو یونان لا رہے ہیں اور احتجاجی مظاہروں سے ٹریفک کی آمد و رفت اور یونانی شہریوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگوں نے تو ایتھنز کے مرکزی علاقے اومونیا کو پاکستان کا دارلخلافہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت پر یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ مجاز حکام نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ علاقہ پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کے کنٹرول میں ہے۔