(ننھے لکھاریوں کے قلم سے) “بیروت” تاریخ کے آئینے میں
تحریر: آمنہ انصاری
بیروت، “لبنان” کا دارالحکومت اور ایک بڑی بندرگاہ ہے- ابتداء میں بیروت “راس” کے شمالی کنارے پر آباد تھا لیکن اب پوری سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ “پانچ ہزار سال” سے زیادہ عرصے سے آباد ہے، جو اسے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک بناتا ہے۔ زمانہ تاریخ سے قبل بھی یہاں انسان آباد تھے۔ جس زمانے میں بابل و نینوا ، قدیم مصری اور وادئ سندھ کی تہزیبیں اپنے عروج پر تھیں، اس زمانے سے ہی اس شہر کا وجود ملتا ہے۔ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اردگرد کا علاقہ کئی ہزار سال سے آباد تھا۔ بیروت کے شہری علاقے کے اندر بہت سی تاریخی اور قدیم اشیاء دریافت ہوئی ہیں، جن میں “چکمک کے اوزار” قابل زکر ہیں۔
تاریخ میں بیروت کا زکر سب سے پہلے پندرہویں صدی قبل مسیح میں ملتا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں بیروت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ اس شہر کی ترقی کا دور 1860ء سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ 1941ء میں اسے “لبنان” کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔
بیروت، لبنان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں مختلف اقوام آباد ہیں۔ ان میں عربوں کی تعداد زیادہ ہے۔ موجودہ آبادی 30 لاکھ سے زائد ہے، جو اسے “لیونٹ” کے علاقے کا تیسرا سب سے بڑا شہر اور عرب کی دنیا کا تیرھواں بڑا شہر بناتا ہے۔ یہاں امریکی ، فرانسیسی اور لبنانی تین یونیورسٹیاں ہیں۔ عرب ممالک میں یہ شہر ایک بڑا علمی اور فکری مرکز سمجھا جاتا ہے۔ تجارتی لحاظ سے بھی اس شہر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بیروت، لبنان کی حکومت کا مرکز ہے۔ یہ لبنانی معیشت میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ بیروت کی بندرگاہ شام اور اردن سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں پر ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔
2006ء میں “لبنانی خانہ جنگی” اور 2020ء میں بیروت کی بندرگاہ میں ہونے والے دھماکے سے بیروت کو شدید نقصآن پہنچا۔ اس کی تعمیراتی اور آبادیاتی ساخت میں حالیہ دنوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔
بیروت اپنی بھرپور تاریخ اور ثقافت کے لیے مشہور ہے۔ یہ ایک بھرپور تاریخی ورثہ ہے، جس میں آثار قدیمہ کے مقامات شامل ہیں۔ مثلا: “قدیم شہر بائبلوس“۔ بیروت قدیم ترین “فونیشین شہروں” میں سے ایک اور “عالمی ثقافتی ورثہ” کی جگہ ہے۔