اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)

ہنگری کے وسطی اور جنوبی حصے کے اہم زرعی علاقے ہوموکھاٹشگ میں بڑھتی ہوئی خشک سالی نے کسانوں اور شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زیرِ زمین پانی کی سطح گر چکی ہے، پیداوار میں کمی آئی ہے اور کئی کسان اپنا روزگار چھوڑنے اور نقل مکانی پر غور کر رہے ہیں۔

یہ وسیع و عریض خطہ، جو دریائے تیسا اور دریائے ڈینیوب کے درمیان واقع ہے، مکئی، اناج اور سورج مکھی کے بیج کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ بڑھتا درجہ حرارت اور کم بارش اس علاقے کی زرعی صلاحیت کو ختم کر سکتا ہے ۔ ہنگری کے محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ بارش کے باوجود وسطی ہنگری کی زمین اب بھی “انتہائی خشک” ہے اور گرمیوں کی فصلیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

لادانیبینے کے مکھی پالنے والے کرسٹین کیسجوہاز کا کہنا ہے کہ وہ عام طور پر جولائی کے آخر میں اپنی مکھیوں کو فارم واپس لاتے ہیں، مگر اس سال انہیں موسمِ شہد ختم ہونے سے پہلے ہی رات کے اندھیرے میں تقریباً 80 کلومیٹر دور دریائے تیسا کے سیلابی میدان میں منتقل کرنا پڑا تاکہ مکھیوں کو پولن مل سکے۔
“یہ علاقہ تیزی سے خشک ہو رہا ہے اور مکھیوں کو مناسب خوراک نہیں مل رہی،” کیسجوہاز نے بتایا۔ گزشتہ سال خشک سالی کے باعث انہوں نے اپنی 30 فیصد مکھیاں کھو دیں۔ پانچ نسلوں سے خاندان کی ملکیت یہ فارم اب وہ بیچنے اور زیادہ مرطوب علاقے میں منتقل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

جاسزسینتلاسلو کے کسان چابا تولدی نے کہا کہ اس سال ان کی چراگاہوں نے پہلی بار نقصان دیا ہے۔
“بڑے فارم رکھنے والے کسان ہمت ہار رہے ہیں، میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کی تعداد آدھی کر رہے ہیں،” انہوں نے کہا۔ ان کا انتباہ ہے کہ اگر پانی نہ لوٹایا گیا تو ہوموکھاٹشگ مکمل طور پر بنجر ہو جائے گا۔

ہنگری حکومت نے رواں سال مئی میں پانچ ارب فورنٹ (تقریباً 14.29 ملین امریکی ڈالر) کا منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد نہروں کی صفائی اور پانی ذخیرہ کرنے کے اقدامات ہیں۔ تاہم وزیرِاعظم وکٹر اوربان کا کہنا ہے کہ خشک سالی سے مکمل تحفظ دینا ممکن نہیں۔

2022 میں خشک سالی نے زرعی شعبے کو تقریباً ایک کھرب فورنٹ (2.86 ارب امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچایا تھا، جس کے اثرات نے ملکی مہنگائی کو دو دہائیوں کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا۔