تحریر: جواد شجاع

ہمارے معاشرے میں جب کبھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ نازیبا حرکت کرتا ہے یا کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے، تو اگرچہ اس شخص کی مذمت کی جاتی ہے، مگر عمومی تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ “مرد تو ویسے ہی ہوتے ہیں”۔ گویا پوری جنسِ مرد کو مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ وہی مرد اپنے گھر کی ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا محافظ بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح جب کوئی عورت کسی بدکرداری یا زیادتی کی مرتکب ہوتی ہے، تو بجائے اس کے کہ صرف اس خاتون کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے، پوری عورت ذات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔

اسلام، جو دنیا کا کامل ترین دین ہے، اس نے مرد اور عورت دونوں کو عزت و مقام عطا کیا ہے۔ قرآن و سنت میں دونوں کی ذمہ داریاں اور حقوق واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ کسی ایک جنس کو برتر یا کمتر قرار دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو فضیلت کا معیار قرار دیا ہے، نہ کہ جنس کو۔

نبی کریم ﷺ کے دور کے دو عظیم واقعات

پہلا واقعہ – انصاف کا معیار (عورت کا واقعہ):
ایک عورت نے چوری کی، اور جب اس پر حد (شرعی سزا) لاگو ہونے کا وقت آیا تو کچھ لوگوں نے سفارش کرنے کی کوشش کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا:

> “تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کی جاتی۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی، تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔”
(صحیح بخاری)

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی ﷺ نے کسی عورت کو جرم پر رعایت نہیں دی، بلکہ عدل کو ہر رشتے اور صنف سے بالاتر رکھا۔

دوسرا واقعہ – مرد کی پاکدامنی (حضرت جریرؓ کا واقعہ):
حضرت جریر بن عبداللہؓ نہایت خوبصورت، باوقار اور باحیا صحابی تھے۔ ایک مرتبہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آئے، تو نبی ﷺ نے فرمایا:

> “تمہارے اندر یوسفؑ جیسی حیا ہے۔”
(سنن نسائی)

یہ تعریف صرف خوبصورتی کی نہیں تھی، بلکہ اُن کے کردار کی گواہی تھی۔ حضرت جریرؓ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے، کبھی کسی عورت کو بری نظر سے نہ دیکھتے، حالانکہ وہ صاحبِ حیثیت، نوجوان اور خوبرو تھے۔ ان کا کردار ثابت کرتا ہے کہ مرد بھی باعزت، باحیا اور باکردار ہوتے ہیں۔

ہمیں بطور مسلمان اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اگر کوئی شخص – مرد ہو یا عورت – جرم کرے تو اسے بطور مجرم دیکھا جائے، نہ کہ اس کی صنف کو بنیاد بنا کر پوری جنس کو الزام دیا جائے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی جب کوئی جرم ہوتا ہے، تو قانون صرف “مجرم” کو دیکھتا ہے، نہ کہ اس کی صنف، رتبے یا شہرت کو۔ یہی تعلیم اسلام ہمیں چودہ صدیاں پہلے دے چکا ہے۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم انصاف کو ہر چیز پر فوقیت دیں گے۔ مرد ہو یا عورت، اگر جرم کرے گا تو قانون کے مطابق سزا پائے گا۔ یہی رویہ ہمارے معاشرے کو عدل، امن اور فلاح کی طرف لے جا سکتا ہے – جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا۔