تحریر: محمد زنیر

خیبر پختونخوا میں 1947 سے اب تک مختلف سیاسی جماعتوں نے حکومت کی ہے۔  2013 سے 2025 تک پاکستان تحریکِ انصاف  نے مسلسل تین ادوار میں حکومت کی، جو صوبے کی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔ اس سے قبل، 2008 سے 2013 تک عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت کی تھی۔ اس طرح، 1947 سے 2025 تک کے عرصے میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ مدت تک خیبر پختونخوا میں حکومت کی ہے اور اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مسلسل بارواں سال ہے۔ کیا اس ایک دہائی سے زائد عرصے میں تبدیلی کے تمام دعوے پورےہوچکے ہیں؟ شاید اس سوال کا جواب “نہ” ہی ہوگا لیکن ہمارے پاس کرنے کو بہت سے سوالات ہیں۔ پاکستان کو گزشتہ 15  برسوں سے جلسوں، دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں میں مصروف رہنے والے پختونخواہ کے وزیروں اور عہدیداران کی کارکردگی کیا ہے؟ ہم نئے منصوبوں کی بات ابھی نہیں کرتے ہم پرانے سسٹم کی ہی بات کر لیتے ہیں کہ کون سا ایسا صوبائی ادارہ ہے جو اس عرصے میں مثالی بن چکا ہو؟ کونسا ایسا وزیر ہے جس کے بارے میں یہ کہ سکیں “واہ کمال کردیا”۔ مختلف شعبوں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، قانون، بنیادی سہولیات، سڑکیں اور انفراسٹرکچر جیسے اہم شعبوں میں حکومت کی کیا کارکردگی رہی؟ کیا 100 میں احتساب کرنے کا وعدہ پورا ہوگیا؟ کیا تعلیمی اصلاحات ہوگئیں؟ صحت کے شعبے میں بھی حکومت کی کارکردگی کیا رہی؟ قانون کی عملداری ہوچکی؟

بنیادی سہولیات کی ہی بات کرلین تو وعدے اور حقیقت دونوں میں کافی فرق نطر آئے گا، اصلاحات کے دعوے کیے گئے، لیکن عملی طور پر کئی مسائل حل نہ ہو سکے۔

بنیادی سہولیات میں سے سب سے پہلے تعلیم کی بات کرلیتے ہیں جہاں تعلیم کے میدان میں کچھ بہتری دیکھی گئی، جیسے سرکاری اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، لیکن بہت سے علاقوں میں اسکولوں کی حالت زار اور وہ تعلیمی معیار نہ دیا جاسکا جس جے دعوے کیے گئے تھے۔ صوبے کی یونیورسٹیز وائس چانسلرز کی عدم تقرری: صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آنے والے یونیورسٹیوں میں مسلسل فنڈز کی کمی کے مسائل اور مالی مشکلات کے باعث بعض یونیورسٹیوں کو اپنی غیر ضروری زمینیں فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جو تعلیمی اداروں کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہے۔  صوبائی لیول پر کھیلوں اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی، نوجوان باکسر حامد خان سواتی، جن کو پختونخواہ حکومت کی طرف سے دیا جانے والا انعامی رقم کا چیک آج تک کیش نہ ہوسکا اور محکمے کے لوگ لے اڑے، جیسے ہونہار بچے چندے کے رقم جمع کر کے برطانیہ تک پہنچے اور باکسنگ فائٹ کا ٹائٹل جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا۔

صحت کے شعبے میں بھی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی برقرار رہی، جہاں مریضوں کو اکثر ادویات باہر سے خریدنی پڑتی تھیں۔ حکومت اور طبی عملے کے درمیان تنازعات کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی وعدے پورے نہ ہو سکے، کے پی کے کے دارالحکومت پشاور کا واحد میگا پراجیکٹ بس ریپڈ ٹرانزٹ  BRT منصوبہ تاخیر اور کرپشن الزامات کا شکار رہا، جس سے عوام کو متوقع سہولیات میسر نہ آ سکیں۔ قانون کی عملداری کی بات کریں تو صوبے میں بدامنی کا تسلسل برقرار رہا جس میں پارہ چنار کا معاملہ سرفہرست ہے جبکہ 2021 کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔

دوسری بنیادی سہولیات کی بات کی جائے تو پانی اور بجلی کی قلت کا شدید مسئلہ رہا کئی علاقوں میں پانی اور بجلی کی فراہمی میں مشکلات برقرار رہیں، جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انفراسٹرکچر کے شعبے میں بھی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی، موٹرویز اور پنجاب کی سڑکوں پرتنقید کرنے والوں کے اپنے صوبے کے کئی اضلاع میں سڑکوں کی مرمت نہ ہونے کے باعث عوام کو سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  ان تمام معاملات کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت نے جو میگا پراجیکٹس شروع کیے ان پر اب تک کوئی پراجیکٹ  مکمل طور پر پائے تکمیل نہ ہوسکا، جن میں پن بجلی، بلین ٹری، تعلیمی ایمر جنسی، قانون و انصاف اور بی آر ٹی شامل ہیں۔  مارچ 2024 میں علی امین گنڈا پور نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ان کی کارکردگی کیا رہی ایک نظر اس پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ جس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کے دورحکومت کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے اور اگر ان کا موازنہ مریم نواز کی کارکردگی سے کیا جائے تو شاید انہیں شرمندگی محسوس ہوگی۔  غرض یہ کہ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں حکومت کے دوران بنیادی مسائل عملی طور پر حل طلب رہے اور حکومتی کارکردگی توقعات پر پوری نہ اتر سکی، جس سے عوام میں مایوسی پھیلی۔

 

 

 

50% LikesVS
50% Dislikes