اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)

گلگت بلتستان حالیہ مون سون سیزن میں شدید ماحولیاتی اور قدرتی آفات کی لپیٹ میں رہا۔ حکام کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں کم از کم 20 چھوٹے بڑے سیلابی واقعات پیش آئے جن میں 25 افراد جاں بحق جبکہ نقصانات کا تخمینہ 25 ارب روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔

ان دنوں ہنزہ کے قریب شیشپر گلیشیئر کے پھٹنے اور گوجال و گلمت میں دریائے ہنزہ کے بپھرنے سے شاہراہ قراقرم کئی روز سے بند ہے۔ اسی طرح بلتستان کے ضلع شگر میں بھی سیلابی ریلوں نے شاہراہ کے ٹو کو چھ مقامات سے کاٹ ڈالا۔ لینڈ سلائیڈنگ کے درجنوں واقعات نے مزید مشکلات پیدا کر دیں۔

احسن آباد اور گلمت کے رہائشیوں نے بتایا کہ گلیشیئر سے اچانک بڑے برفانی تودے گرے، جس کے بعد نالے بند ہوئے اور اچانک پانی کے اخراج نے خوفناک سیلابی صورت اختیار کر لی۔ کئی مکانات، زرعی زمینیں اور باغات تباہ ہوگئے۔ ایریگیشن چینلز ٹوٹ گئے اور لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنا پڑا۔

گلگت بلتستان کی معیشت بڑی حد تک سیاحت پر انحصار کرتی ہے۔ مگر حالیہ آفات کے بعد ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں نوے فیصد بکنگ منسوخ ہوگئی ہے۔ ہنزہ کے ہوٹل مالکان کے مطابق جولائی اور اگست کا سیزن، جو عموماً سیاحت کا عروج ہوتا ہے، اس سال ویران ہے۔ اس صنعت سے جڑے 20 ہزار سے زائد افراد کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں۔

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات گلگت بلتستان، سید بقدر شاہ کے مطابق اس سال خطے میں درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 5 ڈگری زیادہ رہا، جس نے گلیشیئر پگھلنے کے عمل کو تیز کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگست کے دوران مزید خطرات موجود ہیں، تاہم ستمبر میں حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔

گلیشیئرز کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں گلیشیئرز کا تیز پگھلاؤ اور برفانی جھیلوں کا اچانک پھٹنا نئے خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ “یہ صورتحال پہلے کبھی اتنی شدت سے سامنے نہیں آئی تھی۔”

حکومت گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق تباہی کی ایک بڑی وجہ انسانی اقدامات ہیں۔ “پانی کے راستوں پر غیر قانونی تعمیرات، پہاڑوں کی بے دریغ کٹائی اور ماحول دوست اصولوں کی خلاف ورزی نے آج علاقے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ باغات پانی کی کمی کا شکار ہیں، زمینوں کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے اور خطہ اپنی ہی زمین کھو رہا ہے۔ “قدرتی نظام میں مداخلت کی گئی، اب قدرت بدلہ لے رہی ہے۔”

گلگت بلتستان اپنی تاریخ کے بدترین ماحولیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف مقامی آبادی بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاحتی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر جا سکتی ہے۔