اردو ٹریبیون (عائشہ ریاض)

موسمیاتی تبدیلیاں جہاں دنیا بھر میں طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی جیسے مسائل پیدا کر رہی ہیں، وہیں اب یہ ہماری غذائی عادات پر بھی گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ ایک نئی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، لوگ زیادہ میٹھے مشروبات اور آئس کریم کا استعمال کرنے لگتے ہیں، جو طویل مدت میں صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے جرنل نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ہوئی ہے جس میں امریکا کے ہزاروں گھرانوں کے 2004 سے 2019 تک کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ محققین نے مختلف موسموں میں ان گھرانوں کی غذائی خریداری کے رویوں کا موازنہ کیا اور معلوم کیا کہ جیسے ہی درجہ حرارت بڑھتا ہے، لوگ پکی ہوئی اور گرم غذاؤں کی بجائے ٹھنڈی اور میٹھی اشیا کو ترجیح دیتے ہیں۔

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ 12 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری اضافے پر اوسطاً 0.70 گرام چینی کے استعمال میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ اضافہ خاص طور پر کم آمدنی والے افراد میں زیادہ نمایاں پایا گیا۔

ماہرین کے مطابق چینی کے زیادہ استعمال سےموٹاپے میں اضافہ، ٹائپ 2 ذیابیطس کا بڑھتا ہوا خطرہ ، امراض قلب اور بلڈ پریشر میں اضافہ اور بچوں میں دانتوں کی خرابی اور موٹاپے کے امکانات جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق مردوں کے لیے روزانہ زیادہ سے زیادہ 36 گرام چینی جبکہ خواتین کے لیے 24 گرام چینی تجویز کی جاتی ہے۔ لیکن تحقیق کے مطابق لوگ اس مقدار سے دو سے تین گنا زیادہ چینی روزانہ استعمال کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف سوڈا کے ایک کین میں تقریباً 40 گرام چینی موجود ہوتی ہے جو ایک دن کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ گرم موسم میں لوگ ذہنی طور پر زیادہ ٹھنڈا رہنے کے لیے اپنی غذاؤں کو بدلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس دوران پکی ہوئی غذاؤں کی خریداری میں کمی اور آئس کریم، سافٹ ڈرنکس اور جوسز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ناقص غذا ان چار بڑے عوامل میں شامل ہے جو دنیا بھر میں 70 فیصد اموات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو مستقبل میں موٹاپا، ذیابیطس اور دل کے امراض جیسے مسائل میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

ماہرین کے مطابق عوام کو چینی کے استعمال کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔ اسکولوں اور دفاتر میں صحت مند مشروبات اور متبادل فراہم کیے جائیں۔ حکومتیں مشروبات اور خوراک کی صنعت کو کم چینی والی اشیا تیار کرنے پر مجبور کریں اور لوگ اپنی غذا میں پھل، سبزیاں اور کم شکر والے مشروبات شامل کریں۔

موسمیاتی تبدیلی صرف ہمارے موسم کو ہی نہیں بلکہ ہمارے رویوں اور صحت کو بھی بدل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اس رجحان کو ابھی سے نہ روکا تو آئندہ نسلوں کو صحت کے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔