اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)
واشنگٹن اور یروشلم میں کئی ہفتوں کے سفارتی رابطوں کے بعد وائٹ ہاؤس نے بالآخر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ جاری کردیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق حماس 72 گھنٹوں کے اندر 32 لاشیں اور 22 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جس کے بدلے اسرائیل مرحلہ وار غزہ کے متعدد علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا اور فوجی کارروائیاں معطل کر دے گا۔
منصوبے کے تحت غزہ میں ایک عبوری ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوگی، جس کی سربراہی صدر ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت عالمی نمائندے اس میں شامل ہوں گے۔ اس حکومت کا مقصد غزہ کی بحالی، انسانی امداد کی فراہمی اور امن کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا۔
اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے تحت 250 عمر قید کے قیدیوں سمیت مزید 1700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا جبکہ یرغمالیوں کی رہائی کے عمل کے دوران اسرائیلی فوجی کارروائیاں روک دی جائیں گی۔ حماس کے منصوبے کو قبول کرنے والے رہنماؤں کو عام معافی دی جائے گی اور باقی کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
بین الاقوامی اور علاقائی افواج غزہ میں سیکیورٹی فراہم کریں گی اور فلسطینی پولیس کو تربیت دیں گی، ساتھ ہی انسانی امداد بلا رکاوٹ پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ امریکا فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی سہولت فراہم کرے گا تاکہ پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے منصوبے کو اسرائیل کے تحفظ کے لیے اہم قرار دیا تاہم واضح کیا کہ اگر حماس نے اسے مسترد کیا تو اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ “یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے تاریخی دن ہے” اور دعویٰ کیا کہ عرب و مسلم ممالک بشمول پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ اور انڈونیشیا نے اس کی حمایت کی ہے۔
اسلام آباد سمیت آٹھ مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیے میں اس منصوبے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ جنگ بندی، غزہ کی تعمیر نو اور دو ریاستی حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ غزہ میں مجوزہ عبوری بین الاقوامی حکومت کی مدت کتنی ہوگی اور اس کے مکمل خدوخال کب سامنے آئیں گے۔