اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)

مراکش میں نوجوانوں کی قیادت میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک شدت اختیار کر گئی ہے، جو گزشتہ چار روز سے ملک بھر میں جاری ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ تحریک بدعنوانی اور عوامی وسائل کے غیر شفاف استعمال کے خلاف شروع ہوئی تھی جس کی قیادت ایک نامعلوم گروپ “GenZ 212” کر رہا ہے، جس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور ڈسکارڈ کے ذریعے احتجاج منظم کیا۔

جنوبی شہر اگادیر کے قریب قصبے لقلیا میں پولیس کی براہ راست فائرنگ سے مزید تین مظاہرین جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد مجموعی ہلاکتوں کی تعداد سات ہوگئی ہے۔ پولیس اب تک ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرچکی ہے جبکہ سیکڑوں زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

مظاہرین کا الزام ہے کہ پولیس نہتے نوجوانوں پر طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے اور براہ راست گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ مشتعل مظاہرین پولیس سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔

وزیراعظم عزیز اخنوش نے احتجاجی قیادت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے مگر عوامی لہر کے تھمنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ مظاہرین کا سب سے مقبول نعرہ ہے: “اسٹیڈیم تو بن گئے، ہسپتال کہاں ہیں؟” کیونکہ حکومت 2030 ورلڈ کپ کے لیے اربوں ڈالرز اسٹیڈیمز اور انفراسٹرکچر پر لگا رہی ہے جبکہ عوام بنیادی سہولیات جیسے سکول اورہسپتال سے محروم ہیں۔

ماہرین کے مطابق مراکش کی یہ عوامی بغاوت حالیہ دنوں میں خطے کے دیگر ممالک، بشمول بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال میں ہونے والی عوامی تحریکوں سے جڑی نظر آتی ہے جہاں کرپٹ اور آمر حکومتوں کے خلاف عوامی طاقت نے بڑا کردار ادا کیا۔