اردو ٹریبیون (لاہور ڈیسک)
ہیرات، افغانستان میں ایران کی سرحد پر واقع اسلام قلعہ کے مقام پر سینکڑوں بسوں سے اُترتے مسافروں کے چہرے تھکن، مایوسی اور خوف سے بھرے ہیں۔ مائیں بچوں کو گود میں اٹھائے اور مرد سامان کے بھاری بستے سنبھالے، ایک ایسے وطن میں لوٹ رہے ہیں جو اب ان کے لیے اجنبی سا ہو چکا ہے۔
2025 کے صرف ابتدائی سات ماہ میں ایران اور پاکستان سے 12 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجا گیا ہے، جن میں زیادہ تر ایران سے نکالے گئے افراد شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اسے ایک بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے تعبیر کر رہے ہیں۔
“پورے مہینے ہم گھر سے نہیں نکل سکتے تھے،” مشہد سے لوٹنے والے مزدور علی رضا سلطانی نے بتایا۔
“اگر باہر نکلتے تو پولیس ہمیں پکڑ لیتی، مارتی، ہراساں کرتی اور تھانے لے جاتی۔”
“ہمیں کتے سمجھا گیا”
ایران سے واپسی پر ہر شخص کے پاس اپنے درد کی کہانی ہے۔ اُمید نامی نوجوان نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا:
“میرے پاس مشہد میں گھر، گاڑی اور روزگار سب کچھ تھا۔ لیکن پولیس نے مجھے گرفتار کیا، مارا پیٹا، گاڑی چھین لی اور دکان بند کر دی۔ ہمیں انسان نہیں بلکہ کتے سمجھا گیا۔”
محمد عارف کو ایرانی پولیس نے تہران کے مشہور ’گردنِ تمباکو‘ مرکز میں تین دن حراست میں رکھا۔
“میرے چھوٹے چھوٹے بچے روز تھانے کے باہر آ کر روتے رہے کہ ابو کو چھوڑ دو، ہمارے پاس کوئی سہارا نہیں،” وہ کہتے ہیں۔ “میری بیوی اور بچے آج بھی سرحد کے اُس پار بے یار و مددگار بیٹھے ہیں۔”
کئی افراد کو بغیر کسی وضاحت یا ثبوت کے جاسوس قرار دے کر زبردستی نکالا گیا۔ سید محمود کا کہنا تھا:
“انہوں نے مجھے ’سنگِ سفید‘ لے جا کر کہا تم جاسوس ہو، میں نے پوچھا ثبوت کیا ہے؟ کچھ نہیں تھا، بس کہتے رہے مان لو۔”
اسلام قلعہ میں افغان طالبان کی حکومت نے ایک رجسٹریشن کیمپ قائم کیا ہے جہاں خوار و زار مہاجرین کا بایومیٹرک اندراج ہو رہا ہے۔
مولوی ہجرت، ڈائریکٹر کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق:
“شروع کے دن بہت مشکل تھے، ایک دن میں 30 سے 50 ہزار افراد واپس آئے۔ مگر ہم نے فوری اقدامات کیے، سب کو پانی، دوا اور خوراک ملی۔”
ایران سے لوٹے ہوئے نوجوان طالب شاہ سلطانی نے بین الاقوامی برادری اور طالبان حکومت سے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی اپیل کی:
“ہمارے نوجوان ایران میں صرف روٹی کی خاطر ذلیل ہوئے، ہمیں یہاں روزگار دیں تاکہ ہم عزت سے جی سکیں۔”
مہاجرین میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ طالبان حکومت کی پالیسیوں کے تحت خواتین کے لیے تعلیم، ملازمت اور آزاد نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں، جس سے ان کا مستقبل مزید غیر یقینی ہو گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اس واپسی کو ایک ’’انسانی المیہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان لاکھوں افراد کی بحالی، روزگار، رہائش اور تعلیم کا بندوبست نہ کیا گیا تو خطے میں غربت اور بے چینی مزید بڑھے گی۔