(اردو ٹریبیون ڈیسک) — مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اُس وقت سنگین صورت اختیار کر گئی جب امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے تین اہم جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایران کے نطنز، فورڈو اور اصفہان کے جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب امریکی B-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کی مدد سے کیے گئے، جنھوں نے زمین دوز تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے جدید ترین ‘بَنکَر بسٹر’ بم استعمال کیے۔
امریکی صدر کا مؤقف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ان حملوں کو “انتہائی کامیاب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد “ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے دھکیلنا اور خطے میں امن قائم کرنا” ہے۔ صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ “اب وقت آ گیا ہے کہ ایران اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے۔”
ایران کا ردعمل
ایرانی حکام نے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی براہِ راست مداخلت خطے میں “مکمل جنگ” کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ایران اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جواب دے گا اور یہ حملے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
اسرائیل کی پوزیشن
اسرائیلی وزیراعظم نے حملوں کو “دفاعی اقدام” قرار دیا اور کہا کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔
عالمی برادری کا ردعمل
بین الاقوامی سطح پر ان حملوں پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، جبکہ روس اور چین نے امریکی کارروائی کو “اشتعال انگیز” قرار دیا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پس منظر
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا۔ اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا جاتا رہا ہے، جبکہ ایران ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔
ممکنہ نتائج
تجزیہ کاروں کے مطابق اس پیش رفت کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے اور تیل کی عالمی منڈیوں میں بھی ہلچل دیکھی جا رہی ہے۔